آئی سی سی ٹورنامنٹ کھیلا جارہا ہو اور پاکستان کرکٹ ٹیم اگر، مگر کی صورتحال سے دوچار نہ ہو، ایسا کم ہی ہوتا ہے۔

قومی ٹیم 3 بار آئی سی سی چمپیئن بن چکی ہے یعنی 1992ء کا ورلڈ کپ، 2009ء کا ٹی20 ورلڈ کپ اور 2017ء کی چیمپئنز ٹرافی اور تینوں بار اسی اگر، مگر کی صورتحال درپیش رہی۔

2019ء میں منعقدہ ایک روزہ ورلڈ کپ میں ہم رن ریٹ کی وجہ سے سیمی فائنل تک نہیں پہنچ سکے، مگر اس وقت بھی اگر، مگر کا کھیل آخر تک برقرار تھا۔ تو اس بار ایسا کیوں نہ ہوتا؟ لیکن کیا اب بھی اگر، مگر کی صورتحال درپیش ہے، اس پر آخر میں بات کریں گے، پہلے آج کے میچ پر بات کیے لیتے ہیں۔

پاکستانی ٹیم کے لیے اس اہم ترین میچ سے قبل فخر زمان کے ان فٹ ہونے کی خبر پاکستانی ٹیم کے لیے کسی بھی طور پر اچھی نہیں تھی۔ انجری سے یہ بات بہت حد تک واضح ہوئی کہ شاید فخر کو مکمل فٹ ہونے سے پہلے ہی کھلا دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے بہت سے لوگ شاہین آفریدی کی فٹنس پر بھی بات کر رہے تھے۔

زمبابوے کے خلاف آخری گیند پر شاہین کی رننگ اور اب تک شاہین کی جانب سے کی جانے والی باؤلنگ سے کچھ شکوک و شبہات پیدا ہوئے اور یہ بات ٹھیک بھی معلوم ہونے لگی۔ بہرحال شاہین آفریدی تو ابھی تک کھیل رہے ہیں لیکن فخر زمان صرف ایک ہی میچ کے بعد دوبارہ سے ان فٹ ہوکر اس ٹورنامنٹ سے باہر ہوچکے ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا نیدرلینڈز کے خلاف میچ واقعی اس قدر اہم تھا کہ مکمل طور پر فٹ نہ ہونے کے باوجود فخر کو کھلا دیا گیا؟

فخر کی جگہ اسکواڈ میں محمد حارث شامل ہوئے اور انہیں فوری طور پر ٹیم میں شامل بھی کرلیا گیا۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ محمد حارث ٹی20 طرز کے بہت اچھے بیٹسمین ہیں اور آج کے میچ میں انہوں نے بہتر اننگ بھی کھیلی لیکن ایک ریزرو کھلاڑی کو اس طرح ٹیم میں شامل کرنا کچھ سوال ضرور چھوڑ جاتا ہے۔

یہ بات اس لیے کہی جارہی ہے کہ پاکستانی ٹیم منیجمنٹ پچھلے ٹی20 ورلڈکپ سے اب تک مسلسل حیدر علی، خوشدل شاہ اور محمد آصف کو مواقع فراہم کر رہی تھی اور ان کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ ہمارے اہم کھلاڑی ہیں لیکن جب سال کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ کی باری آئی تو انہیں ایک، 2 میچ کھلانے کے بعد باہر کردیا، بلکہ خوشدل کو تو کوئی موقع ہی نہیں دیا گیا۔ کیا اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ آپ کا اندازہ اور اعتبار غلط تھا؟

ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ پاکستانی ٹیم کے گلے پڑتا دکھائی دیا جب پاور پلے کے اختتام پر قومی ٹیم 43 رنز پر 4 وکٹیں گنوا بیٹھی تھیں۔ اس 43 رنز کی وجہ ویسے محمد حارث ہی تھے ورنہ محمد رضوان، بابر اعظم اور شان مسعود نے تو صرف وکٹ پر وقت ہی ضائع کیا ہے۔

حارث کا کھیل باقی پاکستانی ٹاپ آرڈر کے لیے ایک سبق بھی تھا کہ پاور پلے میں بیٹنگ کس طرح کی جانی چاہیے۔ پاکستانی ٹیم کو پاور پلے میں ایسی اپروچ سے کھیلنے والے ایک بیٹسمین کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی تسلسل سے اسکور بنانے والے مڈل آرڈر بیٹسمین کی۔

آج افتخار احمد کی بیٹنگ دیکھتے ہوئے ایک بار پھر ان کا وہی بیان یاد آرہا تھا کہ آسٹریلیا کی بڑی باؤنڈریز پر چھکے لگانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوگا اور افتخار نے آج ٹورنامنٹ کا سب سے بڑا چھکا لگا کر ایک بار پھر یہ بات ثابت بھی کردی۔

یہ بات تو شاید اب ہر پاکستانی جانتا ہے کہ محمد نواز اور شاداب خان پاکستانی مڈل آرڈر کی ناکامیوں کا حل ہیں، مگر ہماری ٹیم منیجمنٹ اب بھی اس کو ماننے سے انکاری ہے۔ ان دونوں کو جب بھی بیٹنگ کے لیے جلدی بھیجا گیا ہے انہوں نے اچھی اننگ کھیل کر فیصلہ درست ثابت کیا ہے۔

آج کے میچ میں بھی انہیں جلدی نہ بھیجنے کا ہی فیصلہ ہوا مگر قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ پاکستان کی وکٹیں جلدی گر گئیں اور انہیں وقت سے پہلے وکٹ پر آنا پڑا اور زیادہ اوورز بیٹنگ کرنے کا موقع مل گیا۔ پھر سب نے دیکھا کہ یہ دونوں کس طرح میچ کا رخ تبدیل کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر شاداب خان کی بیٹنگ میں وہی جھلک نظر آئی جو پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں کئی بار دیکھی جاچکی ہیں۔

ٹی20 ورلڈکپ میں پہلی بار پاکستانی بیٹنگ لائن ایک بڑا اسکور بنانے میں کامیاب تو ہوئی لیکن کیا اس کا کوئی فائدہ بھی ہوگا؟ میچ جیتنے کی صورت میں تو فائدہ ہوگیا لیکن سیمی فائنل تک رسائی ہوگی یا نہیں، یہ جاننے کے لیے اتوار کا انتظار کرنا ہوگا۔

شاہین آفریدی ٹی20 کرکٹ میں پہلے ہی اوور میں وکٹ لینے کے لیے مشہور ہیں لیکن انجری سے واپسی کے بعد ایسا صرف افغانستان کے خلاف پریکٹس میچ میں ہی ممکن ہوسکا تھا۔ لیکن جنوبی افریقہ کے خلاف اہم ترین میچ میں جب قومی ٹیم کو اس کام کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، تب شاہین نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے یہ کارنامہ ایک بار پھر انجام دے دیا۔

اس ٹورنامنٹ میں حارث رؤف اب تک پاکستان کے سب سے کامیاب باؤلر ثابت ہوئے تھے لیکن آج کے دن وہ سب سے مہنگے ثابت ہوئے بالکل ویسے ہی جیسے جنوبی افریقہ کے کپتان بوواما نے اس ٹورنامنٹ میں پہلی بار اچھا اسکور بنایا تھا۔

شاداب نے بیٹنگ کے بعد باؤلنگ میں بھی کمال کردیا اور اپنے پہلے ہی اوور میں 2 وکٹیں حاصل کرکے قومی ٹیم کو ایسی برتری دلا دی جو آخر تک برقرار رہی۔ دراصل جس بارش کا خدشہ شروع سے موجود تھا، وہ ایسے لمحے پر ہوئی جب قومی ٹیم میچ جیتنے کی پوزیشن پر آچکی تھی، یعنی ایک بار پھر بارش نے جنوبی افریقہ کو ایسی چوٹ پہنچائی جس کی تکلیف کافی دیر تک محسوس ہوسکتی ہے۔

بارش اس ٹورنامنٹ کے کئی میچوں میں مداخلت کرچکی ہے اور بارش سے پہلے جو ٹیمیں میچ پر اچھی گرفت رکھتی تھیں، انہیں بعد میں شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا اور پاکستان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔

اگر شاداب اپنے پہلے ہی اوور میں 2 اہم وکٹیں نہ لیتے تو جنوبی افریقہ کو اس بارش سے فائدہ پہنچ سکتا تھا مگر ان وکٹیں گرنے کی وجہ سے ڈک ورتھ لوئس سسٹم کے تحت ملنے والا ہدف بہت زیادہ تھا، یعنی 30 گیندوں پر 73 رنز کی ضرورت تھی۔

بارش کے بعد جب میچ شروع ہوا تو ہینرک کلاسن اورٹرسٹن اسٹبس نے پہلے ہی اوور میں 13 رنز بنائے اور ایسا لگنے لگا کہ یہ میچ مشکل صورتحال اختیار کرسکتا ہے مگر ایک بار پھر شاہین کی واپسی ہوئی اور انہوں نے کلاسن کو پویلین کی راہ دکھا دی، جس کے بعد جنوبی افریقہ کی واپسی کے تمام دروازہ پاکستان کے باؤلرز نے بند کردیے اور قومی ٹیم نے یہ میچ 33 رنز سے جیت لیا۔

اس اہم ترین جیت کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستانی ٹیم ٹورنامنٹ میں واپسی کرسکتی ہے یا نہیں، اور اس کے لیے ہمیں ایک اور سپر سنڈے کا انتظار کرنا ہوگا۔

پاکستان کے گروپ میں تمام ہی ٹیموں کا ایک، ایک میچ بچا ہوا ہے اور ابھی تک 4 ٹیمیں سیمی فائنل کی دوڑ میں شامل ہیں۔ اگرچہ پاکستان کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ اس کا آگے جانا بہت ہی مشکل ہے کیونکہ اگر جنوبی افریقہ نے اپنے اگلے میچ میں نیدرلینڈز کو شکست دے دی اور بھارت بھی زمبابوے سے اپنا میچ جیت گیا تو پاکستان کے تمام امکانات ختم ہوجائیں گے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کو سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے اپنا میچ جیتنا ہوگا اور ساتھ ہی انڈیا یا جنوبی افریقہ کی شکست کے لیے دعا بھی کرنا ہوگی۔ ہاں اگر جنوبی افریقہ کا میچ بارش کی نظر ہوجائے تو اس بارش کا فائدہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ہونے والے میچ کے فاتح کو پہنچ سکتا ہے۔

اگر بھارت اپنا میچ جیت جائے تو پھر سیمی فائنل میں اس کا پہنچنا یقینی ہوجائے گا، لیکن اگر جنوبی افریقہ کا میچ بارش کی وجہ سے نہیں ہوسکا تو پوائنٹس ٹیبل پر اس کے 6 پوائنٹس ہوجائیں گے اور یوں پاکستان یا بنگلہ دیش کو سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے نہ صرف میچ جیتنا ہوگا بلکہ اچھے رن ریٹ سے جیتنا ہوگا۔

لیکن یہ اگر، مگر کی صورتحال اس وقت دم توڑ جائے گی اگر بھارت اور جنوبی افریقہ نے اپنے آسان سمجھے جانے والے میچ جیت لیے۔ اس لیے اتوار سے پہلے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے، لہٰذا اپنے جذبات قابو میں رکھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں