نیب ترامیم کیس: سپریم کورٹ نے آرڈیننس کے بعد ریفرنسز میں ہونے والی سزاؤں کا ریکارڈ طلب کرلیا

16 نومبر 2022
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ توہین عدالت ایکٹ 2012 میں لایا گیا جسے سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ توہین عدالت ایکٹ 2012 میں لایا گیا جسے سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) آرڈیننس آنے کے بعد اب تک نیب ریفرنسز میں ہونے والی سزاؤں کا ریکارڈ جمعہ تک طلب کرلیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے نیب قوانین میں ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ عوامی عہدیدار عوامی اعتماد کا حامل اور جوابدہ ہوتا ہے، اگر عوامی عہدیدار کرپشن کرے تو عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔

انہوں نے دلائل دیے کہ مفروضوں پر نہیں، آئین کی بات کر رہا ہوں، عدالت کی ذمہ داری بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ توہین عدالت ایکٹ 2012 میں لایا گیا جسے سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا تھا، توہین عدالت کا قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر عدالت نے قانون سازوں کی عدم قابلیت پر اڑایا تھا۔

اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف بنایا گیا قانون پارلیمنٹیرینز کی عدم قابلیت پر اڑایا جاسکتا ہے؟

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسار کیا کہ عدم قابلیت پر نہیں بلکہ توہین عدالت قانون جانبدار ہونے کی وجہ سے کالعدم قرار دیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ پارلیمنٹ کی قابلیت نہ ہونے کی وجہ سے قانون کالعدم ہوا، عدالت نے بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی مسترد کی لیکن کبھی نہیں کہا کہ پارلیمان کی قابلیت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے کبھی پارلیمان کی اہلیت یا قابلیت پر سوال نہیں اٹھایا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ کہیں لکھا نہیں بلکہ سمجھ کی بات ہے، جعلی بنک اکاؤنٹس کیس میں بنیادی انسانی حقوق کا تعلق عوامی اعتماد سے جوڑا گیا جبکہ نیب کیس مختلف ہے۔

اس پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اب بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دینا ہے یا نہیں یہ عدالت دیکھے۔

درین اثنا کیس کی مزید سماعت کل 17 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔

’نیب ترامیم‘

خیال رہے کہ رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں