آرمی چیف کے خاندان کا ٹیکس ریکارڈ ’لیک‘: عبوری رپورٹ مل گئی، منطقی انجام تک پہنچیں گے، اسحٰق ڈار

اپ ڈیٹ 23 نومبر 2022
ان کا کہنا تھا کہ عبوری رپورٹ دیکھی ہے—فائل فوٹو:ڈان نیوز
ان کا کہنا تھا کہ عبوری رپورٹ دیکھی ہے—فائل فوٹو:ڈان نیوز

وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اہل خانہ کے ٹیکس ریکارڈ کے’ لیک’ ہونے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عبوری رپورٹس مل گئی اور اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

جیو نیوز کے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ عبوری رپورٹ دیکھی ہے، امید ہے کہ فائنل رپورٹ بھی آج مل جائے گی۔

ان سے پوچھا گیا کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اہل خانہ کے ٹیکس ریکارڈ لیک ہوا تھا، آپ نے کل انکوائری آرڈر کی تھی، اگر کسی کے ایف بی آر سے ریکارڈ لیک ہو جائے تو کیا یہ غیر قانونی ہے؟

اس سوال کے جواب میں سینیٹر اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا ہے کہ عدالتی حکم کے بغیر کسی کے بھی ٹیکس ریکارڈز کو نکالا جائے یا لیک کیا جائے، یہ غیر قانونی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ عبوری رپورٹس سے پتا چلا ہے کہ ایک کا تعلق لاہور اور ایک کا پنڈی سے ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ مجاز ہوں کیونکہ راولپنڈی میں سرکل ہے وہاں پر اسسمنٹ ہوتی ہے، ان لوگوں کو اس بات کی اجازت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کو ہم منطقی انجام تک لے کر جائیں گے، غیر قانونی کام کی اجازت دینا یا آنکھیں بند کرنا فرائض کی ادائیگی سے غفلت برتنا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز (21 نومبر) وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اہل خانہ کے ٹیکس ریکارڈ کے ’غیر قانونی لیک‘ ہونے کا نوٹس لیا تھا۔

وزرات خزانہ کی جانب سے یہ بیان تحقیقاتی نیوز ویب سائٹ ’فیکٹ فوکس‘ کی رپورٹ جاری ہونے کے ایک روز بعد سامنے آیا تھا۔

’فیکٹ فوکس‘ کی رپورٹ میں مبینہ طور پر ٹیکس گوشواروں اور ویلتھ اسٹیٹمنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا تھا کہ آرمی چیف کے خاندان نے مبینہ طور پر گزشتہ 6 برسوں میں اربوں روپے کمائے۔

بیان میں اس معاملے میں ملوث نامعلوم عہدیداروں کی جانب سے سنگین کوتاہی کے پیش نظر وزیر خزانہ نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو طارق محمود پاشا کو ہدایت کی تھی کہ وہ خود ٹیکس قانون کی خلاف ورزی کے معاملے کی فوری تحقیقات کریں۔

طارق محمود پاشا کو مزید ہدایت کی گئی تھی کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ڈیٹا کے تحفظ اور رازداری سے متعلق قوانین کی سنگین خلاف ورزی پر ذمہ دار افراد کا تعین کریں اور 24 گھنٹے کے اندر رپورٹ جمع کروائیں۔

’خدا کے لیے معیشت پر سیاست نہ کریں‘

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے معیشت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ خدا کے لیے معیشت پر سیاست نہ کریں، سیاسی ایونٹس ضرور کریں لیکن معیشت کے ساتھ جھوٹ پر مبنی نہ کھیلیں، آپ نے چند گرافک بتائے ہیں اور یہ بھی نہیں بتایا کہ اس کی معلومات کہاں سے حاصل کی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کیا دھرا ان (عمران خان) کی حکومت کا تھا، یہ موج میلہ کرنے آئے تھے، اور چلے گئے، آپ کو تو قوم سے معافی مانگنی چاہیے تھے، آپ نے کہا تھا کہ قرضے کم کروں گا اور ٹیکس بڑھاؤں گا لیکن آپ کیا یہ کرسکے؟

’پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آگے جا کر کم کریں گے‘

ان سے سوال پوچھا گیا کہ خام تیل کی قیمتیں 88 ڈالر فی بیرل ہو گئی ہیں کیا پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات سستی ہوں گی؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں نے آتے کے ساتھ ہی قیتمیں کم کرنے کی کوشش کی، اور قیمتیں کم کی ہیں، اوگرا کی جانب سے متعدد بار سفارشات دی گئی تھیں کہ قیمتوں میں اضافہ کرنا ہے لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کبھی 30 یا کبھی 35 دن کے ذخائر ہوتے ہیں، انشا اللہ عالمی منڈی میں تیل کی کم قیمتوں کا اثر آگے آئے گا، اوسطاً گزشتہ 15 دن کی لاگت کا حساب لگا کر قیمت کا تعین کیا جاتا ہے، ہم اس سے نفع نہیں لیں گے، ہماری عالمی اداروں سے رابطے کرنے پڑے، جو کچھ ہوگا بہتری کریں، اگر قیمتیں نیچیں آئیں گی تو آگے جا کر قیمتیں کم کریں گے۔

روس سے سستا تیل آنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے وزارت پیٹرولیم کو بتا دیا گیا ہے، کوشش ہوگی ان سے سستا تیل لیں، جس طرح وہ پڑوسی ملک کو دے رہے ہیں، جی 7 کمیٹی نے جو کیپ مقرر کی ہے، وہ بھی عالمی منڈی کے مقابلے میں کم ہے، اگر ہمیں بہتر قیمت ملے گی تو پاکستانی عوام کو اس کا فائدہ ہوگا۔

تبصرے (2) بند ہیں

شنکر لعل Nov 23, 2022 01:19am
تصور کریں کہ سرکاری ملازمین کے اثاثہ جات کی جو رپورٹ عوام کے سامنے پیش کرنے کی چیز ہے اسے پیش کرنا غیر قانونی ہے ۔۔ تاکہ جسے جتنا لوٹنا ہے لوٹ لے لیکن کسی کو پتہ نہ چلے ۔۔ اسلئے اشرافیہ طبقے نے یہ معاملات غیر قانونی بنا دیے ہیں ۔۔ کرپشن ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کا ڈیٹا اسسمنٹ کیا جائے کہ کس کس کے والدین سرکاری ملازمین ہیں اور پھر اندازہ لگایا جائے کہ فی بچہ 20-20 ہزار روپے فیس دینے والے 80 ہزار سے ایک لاکھ روپیہ تنخواہ کمانے والے سرکاری ملازمین کے چار چار یا تین تین بچے کیسے اس اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔
Ali Nov 23, 2022 09:11am
اب ٹیکس ریکارڈ بھی ملکی سلامتی کے راز ہیں جو پبلک نہی ہو سکتے؟ اس اہم عہدہ پر رہنے والوں کو اپنے سارے خاندان کے ٹیکس ریکارڈ لازمی پبلک کرنے چاھیے۔ اگر سب حق حلال کا ہے تو رازداری کس بات کی؟