پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اگر مسلم لیگ(ق) پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد برقرار رکھنا چاہتی ہے تو وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو صوبائی اسمبلی توڑنا ہو گی۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی چیئرمین کی گوجرانوالہ اور راولپنڈی ڈویژن سے پارٹی کے متوقع امیدواروں کے ساتھ ساتھ تاجروں کے وفد سے ملاقات کے بعد سابق وزیر نے یہ بات ان میڈیا رپورٹس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہی جن کے مطابق پرویز الٰہی فی الوقت اسمبلی کو تحلیل نہیں کرنا چاہتے۔

تاہم اس کے ساتھ ساتھ فواد چوہدری نے تسلیم کیا کہ مسلم لیگ(ق) ایک آزاد سیاسی جماعت ہے اور سیاسی حقائق کے مطابق اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، مسلم لیگ (ق) کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ پی ٹی آئی کے ساتھ اپنا اتحاد جاری رکھنا چاہتی ہے یا اگلے انتخابات اکیلے لڑنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیوزیر اعلیٰ پرویز الٰہی اور ان کے بیٹے مونس نے ریکارڈ پر کہا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد جاری رکھنا چاہتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں اسی ماہ تحلیل کر دی جائیں گی اور دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے تمام اسٹیک ہولڈرز اس محاذ پر متحد ہیں۔

فواد چوہدری نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے رواں ماہ پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کے پارٹی سربراہ کے فیصلے سے مسلم لیگ (ق) کے ہم منصبوں کو آگاہ کر دیا ہے تاہم انہوں نے کہا کہ اتحادی پارٹی کے رہنما اس عمل کو تھوڑی دیر کے لیے موخر کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تاخیر دونوں صوبوں میں قبل از وقت انتخابات میں رکاوٹ ڈالے گی اور ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ بڑھتا چلا جائے گا۔

سابق وزیر اطلاعات نے مزید دعویٰ کیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان سمیت ریاستی ادارے سیاست میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور اپنے غیر سیاسی ہونے کے وعدے بھول گئے ہیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ آصف زرداری، فضل الرحمٰن اور نواز شریف کی سیاسی لاشیں اٹھانے کے بوجھ سے آزاد ہو کر اپنے آئینی دائرہ کار میں واپس آجائے۔

ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے فواد چوہدری نے ہچکچاتے ہوئے اس بات سے اتفاق کیا کہ پی ٹی آئی کی پنجاب میں نہیں چلتی کیونکہ وہ اپنی خواہش کے مطابق عمران خان پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر تک درج کرنے کے قابل نہیں تھے، انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ فضل الرحمٰن کی جانب سے تضحیک آمیز ریمارکس پر پی ٹی آئی کی خواتین اراکین اسمبلی اور رہنماؤں نے احتجاج کیا تھا اور ایف آئی آر کے اندراج کے لیے صوبے کے تین تھانوں میں درخواستیں جمع کرائی تھیں۔

دوسری جانب انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عام شہری کی درخواست پر پارٹی رہنما شہباز گل کے خلاف لاہور کے قریب ایک تھانے میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کو باس کہنے کے دعوے کی تردید

دریں اثنا، جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کے ایک قریبی ساتھی کی جانب سے مبینہ طور پر ایک دن قبل یہ دعویٰ کیا گیا تھا سابق وزیراعظم عمران خان سابق آرمی چیف کو سیاسی مسائل سمیت ہر چھوٹے موٹے مسئلے پر فون کرتے تھے اور انہیں ’باس‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے تاہم اس دعوے کے ایک دن بعد چیئرمین پی ٹی آئی نے واضح طور پر اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے یہ خطاب جنرل قمر باجوہ کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا کیونکہ وہ ملک کے وزیر اعظم تھے۔

سما ٹی وی کے اینکر پرسن منصور علی خان نے منگل کی سہ پہر جنرل قمر جاوید باجوہ کے ایک سابق معاون کے حوالے سے خبر دی تھی کہ عمران خاص سابق آرمی چیف کو ’’باس‘‘ کہتے تھے۔

سابق وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ وہ جنرل فیض حمید اس وقت ملے تھے جب انہیں خفیہ ایجنسی کے سربراہ کا عہدہ تفویض کیا گیا تھا اور جنرل فیض دراصل جنرل باجوہ کو باس کہتے تھے۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے یہ باتیں جمعرات کو یوٹیوبرز سے زمان پارک میں اپنی رہائش گاہ پر ملاقات کے دوران کہی اور ایک بار پھر اپنے سابقہ موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت کا جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ ایک ’غلطی‘ تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ فوج میں کسی کو بھی توسیع نہیں ملنی چاہیے، جب انہوں نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تو ملک کو کئی مسائل کا سامنا تھا جس نے انہیں اس فیصلے پر مجبور کیا اور دعویٰ کیا کہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کی توسیع ناگزیر تھی۔

سابق آرمی چیف کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ جنرل باجوہ جو کچھ بھی کہتے ہیں وہ اس پر بھروسہ کرتے تھے کیونکہ ہم دونوں ملک کے بارے میں سوچ رہے تھے اور اسے بچانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن مجھے افسوس ہے کہ مجھے سے جھوٹ بول کر دھوکا دیا جا رہا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں