وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے روس سے رعایتی قیمت پر توانائی حاصل نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی کوشش کر رہے ہیں تاہم اس حوالے سے وقت لگے گا۔

سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی نشریاتی ادارے ’پبلک براڈکاسٹنگ سروس‘ کو ایک انٹرویو میں بلاول بھٹو نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اور امریکا کے لیے یہ بات سب سے زیادہ اہم ہے کہ ہم ایسے شعبے تلاش کریں، جن میں ہم ایک ساتھ کام کرنے پر متفق ہوں، ہم ماحولیات اور صحت پر مل کر کام کر رہے ہیں، ہم خاص طور پر خواتین کے لیے کاروباری اور اقتصادی مواقع تلاش کر رہے ہیں۔

انہوں نے پاک۔امریکا تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے ساتھ ہمارا تاریخی رشتہ ہے، جو 1950 کی دہائی سے قائم ہے، جب بھی امریکا اور پاکستان نے مل کر کام کیا، ہم نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور جب بھی ہمارے درمیان کوئی فاصلہ پیدا ہوا تو ہم نے اس سے نقصان اٹھایا۔

وزیر خارجہ نے چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ چین ہمارا پڑوسی ملک ہے، اس کے ساتھ ہماری ایک طویل تاریخ ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی شعبے سمیت دیگر شعبوں میں ہمارا بہت تعاون ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ امریکا اور پاکستان کے لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ دونوں چین اور امریکا کے ساتھ جڑے رہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک روس کا تعلق ہے، ہم رعایتی قیمت پر توانائی لینے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی حاصل کر رہے ہیں لیکن ہمیں انتہائی مشکل معاشی صورت حال، افراط زر، ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم توانائی کے عدم تحفظ کے پیش نظر اپنے علاقوں کو وسعت دینے کے لیے مختلف راستے تلاش کر رہے ہیں، جہاں سے ہم اپنی توانائی حاصل کر سکتے ہیں، ہمیں روس سے جو بھی توانائی ملے گی، اس میں کافی وقت لگے گا۔

’عمران خان انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتے‘

ان سے پوچھا گیا کہ اگر قبل از وقت انتخابات کی صورت میں سابق وزیراعظم عمران خان کامیابی حاصل کریں گے، جس کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عمران خان انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے انہیں (عمران خان) تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا، یہ پہلا موقع ہے، جب جمہوری آئینی طریقہ کار کے ذریعے کسی وزیراعظم کو پارلیمنٹ سے ہٹایا گیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے عمران خان کی مقبولیت کے بارے میں ایک غلط تاثر پیش کیا گیا، ان کی اپنی نشستوں پر ضمنی انتخابات جیتنےکو پاکستان بھر میں ان کی مقبولیت کے جھوٹے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دہائی میں پاکستان کی جمہوری کامیابی یہ ہے کہ ہمارے پاس ایک کے بعد دوسری پارلیمنٹ اپنی 5 سالہ مدت پوری کرتی رہی ہیں، ہمارے پاس 2007 سے 2013 تک حکومت رہی، اس پارلیمنٹ نے اپنی مدت پوری کی اور پُرامن طریقے سے اقتدار اگلی پارلیمنٹ کو منتقل کیا اور اس پارلیمنٹ نے اپنی مدت پوری کرکے اقتدار موجودہ پارلیمنٹ کو منتقل کیا۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان کے لیے اس مثال کو توڑنے کی کوئی معقول وجہ صرف اس لیے ہے کہ عمران خان وزیراعظم نہیں رہے۔

وزیر خارجہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ دنیا کو افغانستان کے ساتھ مشغول کرنے کی وکالت بالکل درست ہے، ہمیں ماضی کی غلطیاں نہیں دہرانی چاہئیں، افغانستان کو سرد جنگ کے جہاد کے بعد چھوڑ دیا گیا، جس کے باعث ہمیں مزید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، ہمارا اصرار ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی برادری کو افغانستان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔

’خواتین کو پاکستان میں مساوی حقوق حاصل ہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک خواتین کے حقوق اور تعلیم کا تعلق ہے، کم از کم پاکستان میں ہم سمجھتے ہیں کہ خواتین کو تعلیم اور معاشرے میں ہر سطح پر مساوی حقوق حاصل ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمیں اس حقیقت پر فخر ہے کہ پاکستان نے پہلی مسلمان خاتون کو وزیر اعظم منتخب کیا، یہ ہمارے لیے مثالیں ہیں، افغانستان کے تناظر میں ہم افغان لڑکیوں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور یہ وہ عہد ہے جو انہوں نے بین الاقوامی برادری اور اپنے عوام کے ساتھ کیا ہے۔

’منتظر ہیں، جب افغانستان میں لڑکیوں کیلئے ثانوی تعلیم کی بھی اجازت ہوگی‘

انہوں نے توقع ظاہر کی کہ افغانستان کی حکومت لڑکیوں کی تعلیم اور اپنے دیگر وعدے پورے کرے گی، اسی وجہ سے ہم ان کے ساتھ یہ معاملات اٹھاتے رہتے ہیں، ہم اس حقیقت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ افغانستان میں لڑکیوں کے لیے پرائمری تعلیم کی اجازت ہے اور ہم اس دن کے منتظر ہیں جب افغانستان میں لڑکیوں کے لیے ثانوی تعلیم کی بھی اجازت ہوگی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ میری پارٹی نے ماضی میں بھی جمہوریت کی پیروی کی ہے اور وہ آج بھی پاکستان میں جمہوریت کی وکالت کرتی ہے اور یہ فیصلہ عوام پر چھوڑتی ہے کہ وہ اپنی نمائندگی کے لیے کس کو منتخب کرنا چاہتے ہیں۔

’بیشتر ترقی پذیر ممالک کو معاشی ترقی کے حوالے سے غیر معمولی چیلنجز درپیش ہیں‘

فوٹو: اے پی پی
فوٹو: اے پی پی

دوسری جانب، نیویارک میں جی 77 وزارتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ آج دنیا کے بیشتر ترقی پذیر ممالک کو معاشی ترقی کے حوالے سے غیر معمولی چیلنجز درپیش ہیں، اس کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی بحران کے خطرات بھی ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین برسوں میں ہماری معیشتیں اور سوسائٹیاں ایک کے بعد ایک بحران کی لپیٹ میں رہی ہیں، جس میں کورونا وائرس کی عالمی وبا، سپلائی چین میں خلل، کرنسیوں کی قدر میں کمی، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہونے والی تباہی اور جیو پولیٹیکل صورت حال اور خاص طور پر یوکرین کی جنگ اور اس کے بعد پابندیاں شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے زیادہ تر رکن ممالک کا مستقبل قریب تاریک نظر آتا ہے، اگلے برس عالمی معاشی شرح نمو کا تخمینہ 3 فیصد سے بھی کم لگایا گیا ہے، اشیائے خوردونوش سمیت دیگر چیزوں کی قیمتیں بُلند رہیں گی، ڈالر میں شرح سود میں اضافے کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کی کرنسیوں کی قدر کم ہو رہی ہے اور مزید گردشی قرضوں کے بوجھ میں اور مارکیٹ سے قرض لینے کی قابلیت میں بھی کمی ہو گی۔

’برآمدت کے ذریعے ترقی کرنا مزید مشکل ہو جائے گی‘

وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح زیادہ تر ممالک کے لیے برآمدت کے ذریعے ترقی کرنا مزید مشکل ہوگا، اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی نے ترقی کے چیلنجز کی نوعیت تبدیل کر دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں نہ صرف پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات اور تباہی سے بحالی اور مستقبل میں اس کے اثرات سے بچنے کے لیے اقدامات بھی کرنے کی ضرورت ہوگی، ہمیں اس حوالے سے عالمی تخفیف کے اہدف میں تعاون کی توقع ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ ترقی اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے حکومتوں کی طرف سے بھرپور کوششیں اور اس کے لیے وسیع پیمانے پر عالمی سطح پر یک جہتی اور تعاون کی ضرورت ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایس ڈی جیز میں فنانسنگ کا خلا 2019 میں 2.5 ٹریلین ڈالر کا تھا، جو اب بڑھ کر 4 ٹریلین ڈالر ہو چکا ہے، اگر اس میں موسمیاتی مقاصد کی لاگت کو شامل کیا جائے تو ہمیں ایس ڈی جیز کے اہداف حاصل کرنے کے لیے مزید کئی ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہوگی۔

’25 کروڑ افراد کو بھوک کا سامنا ہے‘

انہوں نے کہا کہ آج دنیا میں 25 کروڑ افراد کو بھوک کا سامنا ہے، ہمارے 82 رکن قرضوں کی زد میں ہیں، مالی کفایت شعاری ان کی ترقی کو روک دے گی اور بھوک اور غربت کو بڑھا دے گی، ہمیں غربت کے جال سے نکلنے کے لیے ایک راستہ بنانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کا مقصد ایسے اقدامات شروع کرنا ہے جو ترقی پذیر ممالک کو درپیش فوری چیلنجوں کا جواب دیں اور پائیدار ترقیاتی اہداف اور درکار بین الاقوامی مالیاتی اور اقتصادی نظام میں اصلاحات یقینی بنانے کے لیے حکمت عملی کا خاکہ پیش کریں، ہمیں ایمرجنسی ٹاسک فورس کے قیام کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔

وزیرخارجہ نے کہا کہ اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں کو ترقی پذیر ممالک کے لیے اجناس اور ایندھن کی قیمتوں کو محدود کرنے، خوراک، ایندھن اور کھاد تک ان کی رسائی یقینی بنانے کے لیے طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے، ترقی پذیر ممالک جو موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات سے دوچار ہیں، ان اثرات سے نکلنے کے لیے فوری طور پر ان کی فراخدلی سے مدد کی جانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کوپ-27 پر اتفاق کردہ لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ فعال کرنے پر کام شروع کر رہے ہیں، اس تناظر میں میری حکومت اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی 9 جنوری 2023 کو جنیوا میں ”کلائیمیٹ ریزیلینٹ پاکستان“ کے لیے بین الاقوامی کانفرنس کی مشترکہ میزبانی پر شکر گزار ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جب ہم حالیہ برسوں کے بحرانوں سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں، تب بھی گروپ-77 اور چین کو پائیدار عالمی نمو بحال کرنے، بین الاقوامی اقتصادی تعلقات میں ایکویٹی شامل کرنے اور اپنے اقتصادی تعلقات بحال کرنے کے لیے درکار نظامی اور ساختی تبدیلیوں کے فروغ میں پیش پیش رہنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچے کی اصلاح کے لیے سیکریٹری جنرل کے مطالبے کا ساتھ دینا چاہیے، اس میں کئی جرات مندانہ اقدامات شامل ہوں گے جن میں ایک، خودمختار قرضوں کے پائیدار انتظام کے لیے ایک کثیر جہتی طریقہ کار سمیت اجتماعی قرض سے نجات کے لیے ایک بہتر مشترکہ فریم ورک اور ایک نئی خودمختار قرض اتھارٹی شامل ہے۔

’قرض لینے کی لاگت کم کرنے کے لیے میکانزم بنانا چاہیے‘

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے قرض لینے کی لاگت کم کرنے کے لیے میکانزم بنانا چاہیے، ترقی پذیر ممالک کو بھی اپنی سرمایہ کاری منڈیوں کی تعمیر اور ٹیکس کوریج اور محصولات بڑھا کر نمایاں طور پر بڑےاندرونی وسائل کو متحرک کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوششیں کرنی چاہئیں، اس مقصد کے لیے ڈیجیٹل لین دین سمیت کثیر القومی کارپوریشنز کے ذریعے ٹیکس چوری اور منافعے کی منتقلی روکنے کے لیے ایک منصفانہ بین الاقوامی ٹیکس نظام اپنانا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ترقی یافتہ ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ موسمیاتی فنانس میں سالانہ 100 ارب ڈالر فراہم کرنے کے اپنا وعدہ پورا کریں اور “لاس اینڈ ڈیمیج “فنڈ فوری طور پر فعال کریں اور ترقی یافتہ ممالک سے کاربن اخراج میں کمی کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک پائیدار عالمی معیشت کی طرف منتقلی کے لیے پائیدار بنیادی ڈھانچے کی تیزی سے تنصیب کی ضرورت ہوگی، ہمیں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو اور جی سیون کے عالمی انفرا اسٹرکچر انیشیٹو جیسے اقدامات کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اقوام متحدہ کے دفاتر ترقی پذیر ممالک میں ایسے اعلیٰ معیار کے پائیدار بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی تیاری میں مدد کے لیے متحرک کرلینا چاہیے، اقوام متحدہ کے زیراہتمام ملٹی اسٹیک ہولڈر پالیسی بورڈ پائیدار انفرا اسٹرکچر سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے مفید ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک میں برآمدات کی نمو بحال کرنے کے لیے بین الاقوامی تجارتی نظام کی تشکیل نو کی جانی چاہیے، یہ تمام کامیاب ترقی پذیر ممالک میں ترقی کا بنیادی راستہ رہا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ایک بین الاقوامی ٹیکنالوجی معاہدہ جو پائیدار ترقیاتی اہداف کے ساتھ منسلک ہے کو جامع مذاکرات کے ذریعے اپنایا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ممالک پائیدار ترقیاتی اہداف یا موسمیاتی اہداف کو اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ ہم اس طرح کے ایجنڈے پر ٹھوس پیش رفت نہ کریں، اس طرح کے ہنگامی اور نظامی اقدامات کے بغیر ترقی کی تقسیم ایک ناقابل عبور خلیج کی طرح بڑھے گی جو ہماری دنیا کو ایک ڈراؤنے خواب میں بدل دے گی، ایک ایسی دنیا جو بڑے پیمانے پر انسانی مصائب، سماجی اور سیاسی عدم استحکام اور پھیلتے ہوئے تنازعات سے دوچار ہے، کرہ ارض اور ہماری نسلوں کو آب و ہوا کی تباہی کا بڑھتا ہوا وجودی خطرہ درپیش ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں