اسٹاک مارکیٹ میں 1138 پوائنٹس کی کمی، انڈیکس 40 ہزار کی نفسیاتی حد سے نیچے آگیا

اپ ڈیٹ 20 دسمبر 2022
صدیق دلال نے کہا کہ مستقبل میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی — فائل فوٹو: اے ایف پی
صدیق دلال نے کہا کہ مستقبل میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی — فائل فوٹو: اے ایف پی

ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کے باعث پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں مسلسل دوسرے روز حصص کی قیمتوں میں کمی ہوئی اور بینچ مارک کے ایس ای-100 انڈیکس 40 ہزار کی نفسیاتی حد سے نیچے چلا گیا۔

کاروبار کے اختتام پر بینچ مارک کے ایس ای-100 انڈیکس 1138 پوائنٹس یا 2.78 فیصد گر کر 39 ہزار 832 پوائنٹس پر آگیا، جو ایک موقع پر 3.51 فیصد یا 1437 پوائنٹس کم ہوگیا تھا۔

سربراہ دلال سیکیورٹیز صدیق دلال نے کہا کہ انڈیکس میں کمی کئی وجوہات کی وجہ سے آئی جس میں پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کا خدشہ اور بڑھتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی شامل ہیں جس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے، سال کے اختتام کی وجہ سے میوچوئل فنڈز کے پاس ریڈیمشنز آرہی ہیں جس کی ادائیگی کے لیے وہ بھی مارکیٹ میں شیئرز فروخت کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مارکیٹ پر اثر انداز ہونے والے دیگر عوامل میں بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال، روپے پر دباؤ، ڈالر کی کمی اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے نویں جائزے کی تکمیل میں تاخیر شامل ہیں۔

صدیق دلال نے کہا کہ یہ تمام عوامل مارکیٹ کو نیچے لا رہے ہیں اور مستقبل میں بہتری کی کوئی امید بھی نظر نہیں آرہی۔

ڈائریکٹر فرسٹ نیشنل ایکویٹیز لمیٹڈ عامر شہزاد نے کہا کہ ’ڈالر کی قلت سمیت بہت سارے مسائل جمع ہو چکے ہیں لیکن اس کی بنیادی وجہ سیاسی غیر یقینی صورتحال اور 2 صوبائی اسمبلیوں کی ممکنہ تحلیل ہے جبکہ غیر ملکی ذخائر پر دباؤ بھی موجود ہے‘۔

سابق ڈائریکٹر پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) ظفر موتی والا نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ اسٹاک مارکیٹ گرنے کی بنیادی وجہ سیاسی غیر یقینی صورتحال اور ملک کے دیوالیہ ہونے کی افواہیں ہیں۔

ظفر موتی والا نے افسوس کا اظہار کیا کہ ماضی میں بحران کے وقت پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی مرکزی کیپیٹل مارکیٹ کے ارکان کو مسائل حل کرنے اور افواہوں کی تردید کے لیے اکٹھا کیا گیا تھا، تاہم تازہ صورتحال میں ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آرہا۔

واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے 17 دسمبر کو اعلان کیا تھا کہ 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں گی تاکہ نئے انتخابات کی راہ ہموار کی جاسکے۔

انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے ساتھ ایک ویڈیو خطاب میں کہا تھا کہ آئین نے اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز سے زیادہ انتخابات میں تاخیر کی اجازت نہیں دی۔

تاہم اسمبلیوں کی تحلیل کو ناکام بنانے کی کوشش میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی کے ایک وفد نے گزشتہ شب پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی۔

علاوہ ازیں اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کے خلاف بھی آئین کے آرٹیکل 53 کے تحت تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی ہے۔

دریں اثنا ملک کی معاشی صورتحال دن بہ دن ابتر ہوتی جا رہی ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تشویشناک حد تک نیچے آگئے ہیں جن میں ایک سال کے دوران 11 ارب ڈالر کی کمی آئی ہے۔

دسمبر 2021 میں مرکزی بینک کے ذخائر 17 ارب 68 کروڑ ڈالر تھے جو رواں برس 9 دسمبر تک 6 ارب 70 کروڑ ڈالر رہ گئے تھے، یہ بمشکل ایک ماہ کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔

صورتحال کی سنگینی مزید بڑھ گئی ہے کیونکہ 7 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام کا نواں جائزہ فی الحال ایک ارب 18 کروڑ ڈالر کے اجرا کے لیے آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان زیر التوا ہے جب کہ فریقین کے درمیان بات چیت اور مذاکرات جاری ہیں۔

پاکستان کو مالی سال کے بقیہ حصے میں بیرونی اسٹیک ہولڈرز کو کم از کم 13 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ اسے دوطرفہ اور کثیر الجہتی اداروں سے مزید رقوم کب موصول ہوں گی جس کے سبب دیوالیہ ہونے کے خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں