سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ہماری حکومت افغانستان سے تقریباً 40 ہزار افراد کی دوبارہ آبادکاری کے لیے مذاکرات کررہی تھی جس میں سے تقریبا 5 سے 10 ہزار جنگجو بھی شامل تھے۔

سنٹر آف اسلام اینڈ گلوبل افیئر ( سی آئی جی اے) اور ترک اہلِ دانش سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے اس جانب توجہ مرکوز نہیں کی، جس کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی لہر بڑھ رہی ہے، قابو سے باہر ہونے سے پہلے اس سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنا چاہئیں۔

پاکستان میں دہشت گردی اور افغانستان کے حوالے سے سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان فرق ہے، افغان طالبان کے مقاصد پاکستان کے کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) سے مختلف ہیں، گزشتہ برس افغانستان میں طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستانی طالبان کو کہا کہ واپس پاکستان جاؤ۔

انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت ان سے مذاکرات کررہی تھی تاکہ ان کی دوبارہ آبادکاری کی جاسکے، تقریباً 40 ہزار افراد پاکستان واپس آ رہے تھے جن میں سے تقریبا 5 سے 10 ہزار جنگجو تھے، ان کے اہل خانہ بھی تھے، بدقسمتی سے موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے اس جانب توجہ مرکوز نہیں کی، جس کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی لہر بڑھ رہی ہے، اس پر قابو کے باہر ہونے سے پہلے اس سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنا چاہئیں۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان کو روس-یوکرین تنازع پر ہمیں اخلاقی حوالے سے یا دیگر کوئی بیانات نہیں دینے چاہئیں، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ایسے تنازع میں نہیں پڑنا چاہیے جس سے ہم متاثر نہیں ہوں گے، اگر ہم کوئی بیانات دیتے ہیں تو اس سے پاکستان جیسے ممالک کو نقصان ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم روس سے سستا تیل اور گندم لینا چاہتے تھے، روس کی کمپنی کے ساتھ گیس پائپ لائن کا انتظام کیا جارہا تھا اگر آپ کسی کی طرف جاتے ہیں تو یہ تمام چیزیں متاثر ہوتی ہیں، بھارت کے امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات ہیں، اس نے بھی جنگ میں کسی کا ساتھ نہ دیا، انہیں بھی روس سے سستا تیل چاہیے تھے۔

’یوکرین تنازع کی وجہ سے دنیا بھر میں ایندھن کی قیمتیں بڑھیں‘

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ یوکرین تنازع کی وجہ سے دنیا بھر میں ایندھن کی قیمتیں بڑھیں، ترقی پذیر ملکوں کو خاص طور توازن ادائیگی کے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس تنازع کی وجہ سے دنیا کے لیے بے پناہ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔

’چین اور ترکی نے کشمیر کے معاملے پر بھی ہمارا ساتھ دیا‘

چین اور امریکا کے ساتھ تعلقات سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے چین اور امریکا دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے چاہئیں، اسی طرح امریکا اور روس کے ساتھ بھی ہونے چاہئیں، یہ بھارت کی پالیسی ہے، چین کے پاکستان کے ساتھ 60 سال سے تعلقات ہیں، چین ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا، چین اور ترکی نے کشمیر کے معاملے پر بھی ہمارا ساتھ دیا، باوجود اس کے کشمیر میں ناانصافی جاری ہے، مسلم ممالک بھی ہمارے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک بھی چین کی ترقی کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے، وہاں پر میرٹ کا بہترین نظام ہے، ان کی توجہ صرف طویل المعیاد منصوبہ بندی پر ہوتی ہے، پاکستان میں ہر پانچ سال بعد انتخابات ہوتے ہیں، شاز و نادر ہی 5 سال سے زیادہ کی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ چین ہر ملک کو پیچھے چھوڑ دے گا۔

’یقین ہے کہ کشمیریوں کو آزادی ملے گی‘

ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ہماری حکومت نے ہر عالمی فورم پر کشمیر کے مسئلے کو اٹھایا، خاص طور پر بھارت کی جانب سے 5 اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کے ہونے کے بعد ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے رہے اور بھارت کے ساتھ تعلقات ختم کردیے، پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کے حوالے سے کوئی فوجی حل نہیں ہوسکتا کیونکہ دونوں ممالک جوہری طاقت کے حامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھا سکتے ہیں، بھارت کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کے پاکستان کو کافی نقصانات ہوئے ہیں، جلدی یا دیر سے بھارتی حکومت کو کشمیر کو حقوق دینے پڑیں گے، مجھے یقین ہے کہ کشمیریوں کو آزادی ملے گی۔

’پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام دفاع کے لیے ہے‘

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام دفاع کے لیے ہے، جب کوئی آپ کی آزادی چھینتا ہے تو آپ اس کے لیے لڑتے ہیں، اور فوج کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ بھارت پاکستان سے 7 گنا زیادہ بڑا ملک ہے، جوہری ہتھیار 22 کروڑ لوگوں کو سیکیورٹی فراہم کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نیوکلیئر جنگ کا مطلب دنیا کا خاتمہ ہے، یہ دنیا پر خودکش حملہ ہے، لہٰذا جن مسلمان ممالک کے خلاف ناانصافیاں اور زیادتیاں کی جارہی ہیں، ان کے لیے او آئی سی کے ذریعے مؤثر آواز اٹھانی چاہیے، بدقسمتی سے او آئی سی اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھا رہا۔

عمران خان نے کہا کہ خوداری اور وقار کے ساتھ رہنا کسی بھی ملک کے لیے سب سے اہم ہے، پھر ہی فیصلے عوام کے حق میں ہو سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی باوقار نہیں ہے کیونکہ ہمارا انحصار امداد پر ہوتا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ ایران کے عوام کو مشکلات اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ہوگا لیکن ان ان کے وقار کو ٹھیس نہیں پہنچی، آپ اس بات سے اختلاف نہیں کریں گے کہ وہ اپنی خودمختاری کے لیے کھڑے ہیں، میں اس حوالے سے ایران کی تعریف کرتا ہوں۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے دعویٰ کیا کہ ہم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان لانے کے بہت قریب تھے لیکن پھر صدر ٹرمپ کے الیکشن ہارنے کے بعد مذاکرات کھٹائی میں پڑ گئے۔

تبصرے (0) بند ہیں