اسموگ کی وجہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ کرنا ہے، لاہور ہائی کورٹ

اپ ڈیٹ 04 جنوری 2023
جج نے کہا کہ اگر ماحولیاتی قوانین پر  عمل درآمد کیا جاتا تو آج سموگ نہ ہوتی—فائل فوٹو: اے ایف پی
جج نے کہا کہ اگر ماحولیاتی قوانین پر عمل درآمد کیا جاتا تو آج سموگ نہ ہوتی—فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر حکومت کی جانب سے اسموگ کے حوالے سے عدالتی احکامات پر فوری عمل کیا جاتا تو آج شہر کی ماحولیاتی حالت بہتر ہوتی۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جسٹس جواد حسن نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسموگ کی وجہ سے لاہور میں رہنا مشکل ہو گیا ہے۔

جج نے کہا کہ اگر ماحولیاتی قوانین پر عمل درآمد کیا جاتا تو آج اسموگ نہ ہوتی۔

سول سوسائٹی کے رکن عمرانا تیوانا کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سماعت ہوئی جس میں انہوں نے لاہور اور اس کے اطراف سبز علاقوں کے خاتمے کو چیلنج کیا تھا۔

درخواست گزار کی جانب سے وکیل اظہر صدیق عدالت کے سامنے پیش ہوئے، انہوں نے عدالت کے سامنے شہریوں کے بنیادی حقوق سے متعلق دلائل دیے، انہوں نے کہا کہ شہر میں مناسب منصوبہ بندی کی وجہ سے ہوا کی آلودگی میں اضافہ ہوا ہے۔

وکیل نے کہا کہ شہر میں سبز پودوں اور زمین کی حفاظت کے لیے ہنگامی بنیادوں پر قانونی سازی کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت ہاؤسنگ اور ماحولیاتی اتھارٹیز کو ہدایات جاری کریں تاکہ وہ موسمیاتی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔

جسٹس جواد حسن نے صوبائی سیکریٹری برائے ہاؤسنگ اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 5 جنوری تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کی۔

اس کے علاوہ چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے گزشتہ روز پنجاب کے چیف سیکریٹری کو صوبے کے تمام شہروں اور دیہاتوں کے ماسٹر پلان کی رپورٹ جمع کرانے کے لیے سمن جاری کردیا۔

وکیل اظہر صدیق نے جوڈیشل ایکٹیوزم پینل (جےاے پی) کی جانب سے درخواست دائر کی تھی۔

انہوں نے درخواست میں کہا کہ شہری سہولیات فراہم کرنے کے لیے ڈیولپمنٹ اتھارٹیز اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے حال ہی میں لاہور کے لیے ماسٹر پلان مرتب کیا ہے تاہم اس منصوبہ بندی پر صوبے کے دیگر شہروں کے لیے عمل درآمد نہیں ہوا۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے دو ہفتے کے لیے سماعت ملتوی کردی۔

درخواست نمٹا دی گئی

لاہور ہائی کورٹ نے خاتون کی جانب سے دائر درخواست نمٹا دی جس میں سابق وزیراعظم عمران خان پر وزیر آباد حملے کے معاملے میں اپنے دو بیٹوں کی مبینہ غیر قانونی حراست کو چیلنج کیا گیا تھا۔

جسٹس صفدر سلیم شاہد نے درخواست گزار ارشاد بی بی کے وکیل کو ہدایت دی کہ خاتون کے بیٹوں کی مبینہ گرفتاری کی ویڈیو حاصل کرکے گوجرانوالہ کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) کے سامنے پیش کی جائے۔

جج نے ڈی پی او کو ہدایت دی کہ ویڈیو کی جانچ کرکے تحقیقاتی رپورٹ کو حتمی شکل دی جائے۔

اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ(ن) کے وکیل سمیت وزیراعظم کے معاون خصوصی عطااللہ تارڑ درخواست گزار خاتون کی طرف سے عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے غیر قانونی طورپر درخواست گزار کے دو بیٹوں (مدسر اور احسن) کو صرف شک کی بنیاد پر گرفتار کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے ریکارڈ میں درخواست گزار کے بیٹوں کی گرفتاری کا اعلان نہیں کیا اور انہیں غیر قانونی طور کر حراست میں رکھا ہوا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حراست میں لیے جانے والے دونوں بھائی مسلم لیگ (ن) کے کارکن ہیں اور پولیس نے سیاسی تحفظات کی بنیاد پر انہیں ’اغوا‘ کرلیا ہے۔

وکلا نے کہا کہ عدالت مبینہ طور پر پولیس کی جانب سے غیر قانونی حراست میں لیے جانے والے دونوں بھائیوں کو بازیاب کروانے کا حکم دے اور انہیں رہا کیا جائے۔

تاہم جج نے درخواست گزار اور ڈی پی او کو ہدایات جاری کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔

عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے عطااللہ تارڑ نے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پولیس درخواست گزار کے دونوں بیٹوں کے ’اغوا‘ کو لاپتا افراد کا کیس بنانے کی کوشش کررہی ہے۔

عطااللہ تارڑ نے کہا کہ سی سی پی او اپنی یونیفارم میں ’ڈاکو‘ ہیں اور ایک سیاسی جماعت کے مفاد کو ترجیح دے رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ(ن) کے کارکنوں کی والدہ پولیس کے چھاپے اور اپنے بیٹوں کی غیر قانونی حراست کے تمام شواہد کے ساتھ انسپکٹر جنرل آف پولیس کے سامنے ذاتی طور پر پیش ہوں گی۔

عطااللہ تارڑ نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی اور ان کے بیٹے مونس الٰہی کو اربوں روپے کی مبینہ کرپشن پر احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں