سی این جی اسٹیشنز کی بندش کے خلاف درخواست مسترد

اپ ڈیٹ 11 جنوری 2023
پشار ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے  درخواست کو خارج کرنے کا مختصر حکم سنایا—فائل فوٹو: پی پی آئی
پشار ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے درخواست کو خارج کرنے کا مختصر حکم سنایا—فائل فوٹو: پی پی آئی

پشاور ہائی کورٹ نے مختلف اضلاع میں انتظامیہ کی جانب سے 31 جنوری تک سی این جی اسٹیشنز بندش کو چیلنج کرنے والی درخواست مسترد کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس قیصر رشید خان اور جسٹس اعجاز انور پر مشتمل پشار ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے بلیوٹیک فلنگ اسٹیشن پشاور اور پڑانگ سی این جی اسٹیشن چارسدہ کی مشترکہ طور پر دائر درخواست کو خارج کرنے کا مختصر حکم سنایا۔

درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ 31 دسمبر کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کے تحت دونوں اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کی جانب سے جاری کردہ احکامات کو غیر قانونی قرار دیا جائے جس کے تحت یکم جنوری سے 31 جنوری تک سی این جی اسٹیشنوں کے کام کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ قرار دے کہ ڈپٹی کمشنرز سمیت مدعا علیہان کو فلنگ اسٹیشنز بند کرنے یا انہیں قدرتی گیس کی سپلائی کی بندش کا حکم دینے کا کوئی قانونی حق اور اختیار نہیں تھا اور درخواست گزاروں کو اپنا کاروبار معمول کے مطابق چلانے کی اجازت دی جائے۔

درخواست میں چیف سیکریٹری کے ذریعے صوبائی حکومت، منیجنگ ڈائریکٹر کے ذریعے ایس این جی پی ایل ہیڈکوارٹر، ایس این جی پی ایل کے صوبائی جنرل منیجر، ڈائریکٹر جنرل کے ذریعے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) اور پشاور اور چارسدہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو فریق بنایا گیا تھا۔

اسی طرح کی پابندی صوبے کے بیشتر اضلاع میں عائد کی گئی ہے۔

جنرل منیجر ایس این جی پی ایل تاج علی خان بینچ کے روبرو پیش ہوئے اور بتایا کہ دیگر صوبوں میں بھی سی این جی اسٹیشنز بند ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ سندھ ملک میں قدرتی گیس پیدا کرنے والا سب سے بڑ اصوبہ ہے وہاں بھی سی این جی اسٹیشنز بند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قدرتی گیس کی تقسیم اور لوڈ مینجمنٹ کے لیے وفاقی حکومت نے ’نیچرل گیس ایلوکیشن اینڈ مینجمنٹ پالیسی 2005‘ کی منظوری دی جس میں گھریلو صارفین کو اولین ترجیح قرار دیا گیا، انہوں نے مزید کہا کہ سردی کے مہینوں میں گھریلو صارفین کی جانب سے گیس کا استعمال کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر جاوید وفاقی حکومت کی جانب سے پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ سی این جی اسٹیشنز سمیت صارفین کو قدرتی گیس کی فراہمی پالیسی سے متعلق معاملہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سی این جی اسٹیشنز صرف ایک ماہ کے لیے بند کیے گئے ہیں جبکہ 10 روز گزر بھی چکے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ سی این جی اسٹیشنز میں طاقتور کمپریسرز نصب ہوتے ہیں جس کی وجہ سے گھریلو صارفین کو گیس فراہمی کم ہوجاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اوگرا نے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ معاملے پر بات چیت کی جس کے بعد ملک بھر میں سی این جی اسٹیشنز کو ایک ماہ کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

درخواست گزاروں کے وکیل نے استدلال کیا کہ مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے گزشتہ سال تقریباً ایک جیسے احکامات جاری کیے تھے جس میں سی این جی اسٹیشنز ایک ماہ کے لیے بند کرنے کا کہا گیا تھا، انہوں نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ کو سی آر پی سی کی دفعہ 144 کے تحت سی این جی اسٹیشنز کو بند کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

انہوں نے استدلال کیا کہ آئین کے آرٹیکل 158 کے مطابق قدرتی گیس پیدا کرنے والے صوبے کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ملک کے دیگر صوبوں اور علاقوں پر ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا قدرتی گیس پیدا کرنے میں خود کفیل ہے جو کہ اس کی روزمرہ کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود حکومت نے گیس بندش کا فیصلہ کیا اور سی این جی اسٹیشنز کو بند کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔

انہوں نے دلیل دی کہ ہائی کورٹ نے 7 دسمبر 2010 کو سنائے گئے فیصلے میں واضح طور پر کہا تھا کہ قدرتی گیس پیدا کرنے والے صوبوں کو فراہمی بلا تعطل ہونی چاہیے۔

درخواست گزاروں نے یہ بھی کہا کہ ہائی کورٹ نے ایس این جی پی ایل کو ہدایت کی تھی کہ وہ گیس فراہمی کے حوالے سے درخواست گزاروں اور صوبے کے دیگر تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ معاملات طے کرنے میں آئین کے آرٹیکل 158 کی روح کے مطابق عمل در آمد کرے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں