چرچ آف انگلینڈ نے ماضی میں غلامی سے تعلق پر معافی مانگ لی

اپ ڈیٹ 11 جنوری 2023
آرچ بشپ جسٹن ویلبی نے کہا کہ ماضی میں چرچ کے غلامی سے تعلق پر انتہائی افسوس ہے۔—فائل فوٹو: اے ایف پی
آرچ بشپ جسٹن ویلبی نے کہا کہ ماضی میں چرچ کے غلامی سے تعلق پر انتہائی افسوس ہے۔—فائل فوٹو: اے ایف پی

کلیسائے انگلستان (چرچ آف انگلینڈ) کی فنڈنگ باڈی نے غلامی سے اپنے تاریخی تعلق پر معافی مانگتے ہوئے متاثرہ طبقات کے لیے سرمایہ کاری کے ذریعے ماضی کی غلطیوں کے ازالے کا عہد کیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق انتظامیہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ’چرچ کمشنروں کو اپنے پیشرو کی غلاموں کی تجارت کے ساتھ تعلق پر بہت افسوس ہے‘۔

چرچ کمشنروں نے سب کے لیے ایک بہتر اور منصفانہ مستقبل کے لیے آئندہ 9 برسوں میں 12 کروڑ 20 لاکھ ڈالر سرمایہ کاری کا عہد کیا۔

یہ رقم غلامی سے متاثرہ خاندانوں کی فلاح و بہبود اور غلامی سے چرچ کے تعلق کے بارے میں مزید تحقیق کے لیے وقف ہو گی۔

کلیسائے انگلستان کے سربراہ اور برطانوی ریاست انگلینڈ کے شہر کنٹربری کے آرچ بشپ ’جسٹن ویلبی‘ چرچ آف انگلینڈ کے معزز ترین پادری اور دنیا بھر میں اینگلیکن کمیونین کے سربراہ ہیں، انہوں نے کہا کہ انہیں ماضی میں چرچ کے غلامی سے تعلق پر انتہائی افسوس ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے شرمناک ماضی سے جان چھڑانے کے لیے اقدامات کریں‘۔

چرچ کمشنرز کے ڈپٹی چیئر، مانچسٹر کے بشپ ڈیوڈ واکر نے کہا کہ ’چرچ کی باڈی اب ایک دیرپا اور مثبت رویے قائم کرنے کے لیے پُرامید ہے۔

انگلینڈ کے لیے چرچ کمشنرز 1948 میں ملکہ اینز کے فنڈز سے جزوی طور پر وقف کردہ رقم کے ذریعے قائم کیے گئے تھے، اس فنڈ کا آغاز غریب پادریوں کی مدد کے لیے 1704 سے ہوا تھا۔

اس کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ملکہ اینز نے اپنے فنڈز کی خاصی رقم ’ساؤتھ سی کمپنی‘ میں لگائی تھی جو افریقی غلاموں کی تجارت کرتی تھی۔

محققین نے کینٹربری کے آرچ بشپ کی لندن میں موجود سرکاری رہائش گاہ ’لیمبتھ پیلس‘ میں 200 سال پروانی دستاویزات کے ذریعے غلامی سے اس تعلق کا سراغ لگایا۔

کمشنروں نے رپورٹ میں لکھا کہ ’سیکڑوں برس گزر جانے کے بعد ہمارا کوئی بھی اقدام غلام بنائے گئے لوگوں کو ان کی زندگیاں واپس نہیں لوٹا سکتا لیکن ہم اس غلامی میں چرچ کے ہولناک کردار کا ادراک اور شرمندگی کا اعتراف کر سکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ناانصافیوں کو اپنے ردعمل کے ذریعے مٹانے کی کوشش کریں گے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں