پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کے عمل کا آغاز متوقع

اپ ڈیٹ 13 جنوری 2023
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان بھی صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا عمل شروع کر سکتے ہیں— فائل فوٹو: اسکرین شاٹ
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان بھی صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا عمل شروع کر سکتے ہیں— فائل فوٹو: اسکرین شاٹ

پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا عمل شروع کر سکتے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کابینہ کی ایک سینئر شخصیت نے اس حوالے سے ڈان کو آگاہ کیا اور بعد میں پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے بھی اس کی تصدیق کی۔

خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ قانونی طور پر سمری پر دستخط کرکے گورنر کو بھیجے جانے کے بعد کسی بھی اسمبلی کو تحلیل ہونے میں کم از کم 48 گھنٹے لگتے ہیں، تاہم خیبر پختونخوا اسمبلی کو تحلیل کرنے کا عمل پنجاب اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد شروع ہوگا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے سے روکنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

دریں اثنا اسد عمر نے ڈان نیوز کو بتایا کہ اگلا مرحلہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ خٰبر پختونخوا اسمبلی کب تحلیل ہونے جا رہی ہے تو انہوں نے کہا کہ اسے اگلے 48 گھنٹوں میں تحلیل کر دیا جائے گا۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ق) کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر کوئی حتمی سمجھوتہ ہوچکا ہے، تو انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ق) جتنی سیٹیں مانگ رہی ہے اس کی کوئی حتمی تعداد نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دراصل ہم اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات کریں گے تاکہ اس تاثر سے بچا جا سکے کہ پارٹی پی ٹی آئی کو بلیک میل کر رہی ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ پرویز الٰہی نے تحلیل کی سمری پر دستخط کرنے سے پہلے کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا کیونکہ انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ عمران خان پر اعتماد کرتے ہیں اس لیے وہ تحلیل سے قبل کوئی مطالبہ نہیں کرنا چاہتے۔

چیف الیکشن کمشنر کے بارے میں ایک سوال پر اسد عمر نے کہا کہ پی ٹی آئی ان کے خلاف ریفرنس دائر کرے گی، ہم سمجھتے ہیں کہ قانون کے مطابق انہیں اب چیف الیکشن کمشنر نہیں رہنا چاہیے، یقیناً اس کا فیصلہ عدالتوں کو کرنا ہے لیکن اگر سوال یہ ہے کہ کیا ان کی اس عہدے پر موجودگی کے باوجود انتخابات میں حصہ لیں گے تو ہاں، ہم الیکشن لڑیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں