اس سیریز کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔


راز کی بات نہیں ہے لیکن پھر بھی آپ کو بتا رہا ہوں کہ ہمارے ہاں لوگوں کو سفر کرنا نہیں آتا۔ ٹرین اور بسوں میں تو چھوڑیں، جہاز میں بھی ایسے مسافر ملتے ہیں کہ بندہ سوچتا رہ جاتا ہے کہ اس طرح سفر کرنے کی کیا سائنس ہے۔

میں نے بس کا سفر بھی بہت کیا ہے۔ مسافروں کی اکثریت کے ہاتھ میں ایک پھولا ہوا پلاسٹک کا شاپر ضرور ہوتا ہے جس میں کم از کم ایک یخ بستہ مرنڈا یا پیپسی کی بوتل اور چپس کا پیکٹ ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے ہیں۔ لوکل بسوں کی تو کیا بات کرنی کہ غیر لوکل یعنی ڈائیوو اور اس نسل کی دوسری کمپنیوں کی بسوں میں بھی لوگوں کو پانی مانگتے کم ہی دیکھا ہے۔ ان کا اصرار گیسی مشروبات پر ہوتا ہے اور بعد میں ڈکاریں مار مار کر معدے کے ’اسرار‘ سے لوگوں کو جبراً آگاہ کرتے رہتے ہیں۔

بس میں مسافروں کی اکثریت کے ہاتھ میں ایک پھولا ہوا پلاسٹک کا شاپر ضرور ہوتا ہے
بس میں مسافروں کی اکثریت کے ہاتھ میں ایک پھولا ہوا پلاسٹک کا شاپر ضرور ہوتا ہے

تقریباً ایک سال پہلے کی بات ہے کہ میں ڈائیوو بس میں سفر کر رہا تھا۔ تقریباً آدھے مسافروں کے ہاتھ میں وہی شاپر تھے کہ جن میں ٹھنڈی بوتل کے ساتھ چپس اور ’بلے بلے نمکو‘ ( بلے بلے خیر سے نمکو کا نام ہے) کے پیکٹ بھنگڑے ڈالتے ہوئے اتھل پتھل رہے تھے۔ بس چل پڑی اور میں محمد رفیع صاحب اور لتا جی کا گیت ’چھپ گئے سارے نظارے اوئے کیا بات ہوگئی‘ سنتا ہوا کانوں میں ہیڈ فون لگائے نیم دراز ہوگیا۔

اچانک تھوڑی ہی دیر بعد بس رکی اور پتا چلا کہ ایک لڑکا اصیل النسل مرغا لیے بس میں پیچھے بیٹھا ہے۔ شاید کپڑا ڈال کر یا جیکٹ میں چھپا کر لے آیا تھا۔ نہ پتا چلتا لیکن مرغے نے انگڑائی لی اور لڑکے نے سارے زمانے کی رسوائی لی۔ خیر ان کا معاملہ چلتا رہا لیکن رفیع صاحب اور لتا جی کا گانا حالات کے مطابق بدل گیا۔ اب وہ لڑکا دہائی دے رہا تھا کہ ’میں نے مرغا چھپایا اوئے کیا بات ہوگئی؟‘

مرغے سے یاد آیا کہ جدہ کی پرواز پر ایک مسافر میرے پاس مزید کھانے کی درخواست لے کر آیا۔ میں نے تندور (اوون) ابھی بند ہی کیا تھا لہٰذا مال گرم تھا۔ اس کی خواہش پوری ہوئی تو اپنی داستان سنانے لگا۔ بات کھانے سے ہوتی ہوئی مشہور زمانہ دجاج البیک (البیک چکن) اور وہاں سے اس کے ابّا کے عزیز ترین لڑاکا مرغ تک پہنچ گئی جو ایک لڑائی میں کافی زخم کھانے کے بعد چل بسا تھا۔

کہنے لگا ’سر میں کافی سال سے سعودی عرب میں ہوں۔ میں نے ایک مرتبہ اپنے ابّے کو بلایا اور اسے البیک چکن کھلانے لےگیا۔ جب ڈبہ اس کے سامنے آیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے‘۔

میں نے پوچھا وہ کیوں۔ کہنے لگا کہ ’دجاج‘ کی تصویر دیکھ کر اسے اپنا ظالم اور لڑاکا مرغا یاد آگیا تھا سر۔ وہ ایسا مرغا تھا کہ مرغیاں تو چھوڑیں انسان بھی اس سے پناہ مانگتے تھے۔ میں نے کہا کیوں بھائی اس کا نام دجاج بن یوسف تھا کیا؟ کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہنے لگا یوسف نہیں سر، میرے ابّے کا نام تو اشفاق ہے۔ خیر معلوم یہ ہوا کہ اشفاق صاحب نے اس دن کے بعد کبھی چکن نہیں کھایا جب سے ان کا پیارا دجاج جاں بحق ہوا تھا۔

’دجاج‘ کی تصویر دیکھ کر ابّا کو اپنا ظالم اور لڑاکا مرغا یاد آگیا تھا
’دجاج‘ کی تصویر دیکھ کر ابّا کو اپنا ظالم اور لڑاکا مرغا یاد آگیا تھا

خیر ہم مسافروں کی بات کر رہے تھے۔ ایک اندرونِ ملک پرواز پر مندرجہ بالا بیان کردہ شاپر سے لیس ایک صاحب تشریف لائے۔ ان کی طرح شاپر بھی کافی خوفزدہ لگ رہا تھا۔ دونوں منہ بھینچ کر بیٹھے تھے۔ ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کی پرواز تھی، اس میں کھانے کے لیے سینڈوچ اور کیک پیش کیا گیا۔ لینڈنگ سے پہلے میں ان کے قریب سے گزرا تو دیکھا کہ وہ اپنے شاپر کو جو اس وقت تک خالی ہو چکا تھا، مضبوطی سے پکڑ کر بیٹھے ہیں۔ میں نے کہا مجھے دے دیں اس کو ٹھکانے لگا دیتا ہوں تو کہنے لگے مجھے متلی محسوس ہو رہی ہے اس واسطے رکھا ہے۔ میں نے کہا نشست کی جیب میں اسی مقصد کے لیے تھیلا رکھا ہے اور ہاتھ ڈال کر جو نکالا تو اس میں سینڈوچ اور کیک رکھا ہوا تھا۔

اپنی طرف سے وہ سیانے بن رہے تھے لیکن میری اس حرکت نے ان کے اس سیانے پن سے پہلے ’کھ‘ لگا دیا تھا لہٰذا کھسیانے ہوکر کہنے لگے ابھی دل نہیں کر رہا بعد میں کھاؤں گا اور اس کے ساتھ مکمل دانت بھی دکھانے لگے۔ اسی اثنا میں شاپر کن انکھیوں سے مجھے اشارے کر رہا تھا کہ میری جان بچاؤ۔ چنانچہ میں نے ایک اور ’قے کا خصوصی تھیلا‘ ان کو دے کر اس مظلوم شاپر کی جان بچائی اور اسے گند کے ٹوکرے کے حوالے کیا تاکہ وہ آزاد فضاؤں میں سانس لے سکے جب کہ وہ صاحب خود قے کا ’صاف تھیلا‘ اپنے ساتھ لے گئے۔

وہ صاحب جاتے ہوئے قے کا ’صاف تھیلا‘ اپنے ساتھ لے گئے
وہ صاحب جاتے ہوئے قے کا ’صاف تھیلا‘ اپنے ساتھ لے گئے

ایسے ہی ایک مرتبہ جرمنی کے شہر فرینکفرٹ کی پرواز پر ایک خوش شکل اور لائق نوجوان نالائق ارادوں کے ساتھ مجھ سے باتیں کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اس پرواز پر زیادہ وقت میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ گزارنے کی کوشش کی کہ مجبوری تھی۔

موقع بنانے کی تلاش میں وہ مجھے کہنے لگا میں آپ کو اپنے عیب دکھانا چاہتا ہوں۔ میں بولا بھائی عیب چھپانے والی چیز ہیں دکھانے والے نہیں اور عیب تو سب میں ہوتے ہیں مجھ میں بھی ہیں۔

کہنے لگا نہیں میں عیب (ز) کی بات کر رہا ہوں۔ میں نے کہا آپ شاید ’عیوب‘ کہنا چاہ رہے ہیں۔ معلوم ہوا وہ انگریزی میں Abs کی بات کر رہا تھا جو (گوشت کے لوتھڑے) کثرت سے کسرت کرنے کی وجہ سے پیٹ پر ٹکڑیوں کی صورت میں نمودار ہوجاتے ہیں۔ بھلا ہوا ایک سینیئر کا جو مجھے درجہ اوّل میں سروس کے دوران مدد کروانے کے لیے بلانے آگئے اور میں گوشت کے لوتھڑے دیکھنے سے بچ گیا۔

میں زندگی میں صرف ایک بار فرینکفرٹ گیا ہوں اور وہ بھی اتنے کم وقت کے لیے کہ اچھی طرح سیر نہیں کرسکا۔ خدا کا شکر ہوا کہ ہٹلر کے دیس میں صحیح سلامت لینڈنگ ہوگئی۔ جرمنی میں زبان کا کافی مسئلہ ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ شاید وہ لوگ انگریزی بولنا بھی پسند نہیں کرتے۔ ہر نکڑ پر ترکی کباب اور ڈونر موجود تھے۔ ایک کزن کے دوست وہاں پڑھائی کے سلسلے میں رہتے تھے جنہوں نے وقت نکالا اور آس پاس گھمایا۔ یورو پارک دیکھا جہاں پہلی مرتبہ یورو کرنسی کا افتتاح کیا گیا تھا۔ وہاں ایک مشہور ڈاکٹر صاحب کی ’دکان‘ کا چکر بھی لگا لیکن اس کا ذکر مناسب نہیں کہ وہ تعلیم بالغاں سے متعلق تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں