جماعت اسلامی کی شکایت پر الیکشن کمیشن کا نوٹس، 6 یو سیز کے معاملے کی 23 جنوری کو سماعت

اپ ڈیٹ 18 جنوری 2023
الیکشن کمیشن نے ضلع غربی کی چار یوسیز سمیت مجموعی طور پر چھ یوسیز کے معاملے پر سماعت کیلئے نوٹس جاری کردیے— فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
الیکشن کمیشن نے ضلع غربی کی چار یوسیز سمیت مجموعی طور پر چھ یوسیز کے معاملے پر سماعت کیلئے نوٹس جاری کردیے— فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کراچی میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات میں بے قاعدگیوں کے حوالے سے جماعت اسلامی کی شکایت کا نوٹس لیتے ہوئے 6 یونین کونسلز کے کیسز کی سماعت 23 جنوری کو مقرر کردی۔

سندھ میں بلدیاتی انتخاب کا دوسرا مرحلہ اتوار کو مکمل ہوا تھا اور کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے سرکاری مکمل نتائج تین دن گزرنے کے باوجود اب تک جاری نہیں کیے گئے۔

جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ وہ جن نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے ان کے نتائج تبدیل کر کے ان پر پیپلز پارٹی کو فاتح قرار دے دیا گیا، تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے ان تمام تر دعووں کو مسترد کردیا گیا ہے۔

آج الیکشن کمیشن کی جانب سے جماعت اسلامی کی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے کراچی کی 6 یو سیز میں بے قاعدگیوں کے حوالے سے 23 جنوری کو سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان 6 یوسیز میں ضلع غربی اورنگی ٹاؤنگی کی یو سی 3، ضلع غربی اورنگی کی یو سی 7، ضلع غربی اورنگی کی یو سی 8، ضلع غربی مومن آباد کی یو سی 3، ضلع غربی منگھوپیر کی یو سی 12 اور ضلع شرقی گلشن کی یو سی 1 شامل ہے۔

الیکشن کمیشن نے ان کیسز میں صوبائی الیکشن کمشنر سندھ، متعلقہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران، آر اوز، جیتنے والے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کو نوٹسز جاری کردیے ہیں۔

اس سے قبل آج پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا تھا کہ کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج دیر سے آنے پر شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں اور اگر مینڈیٹ نہیں ملا تو تمام راستے موجود ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ حکومت خود کہتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے دوران ووٹنگ ٹرن آؤٹ کم تھا تو پھر نتائج جلدی جاری ہونے چاہیے تھے مگر اس کے برعکس نتائج جاری کرنے میں غیر معمولی تاخیر کی گئی، جس سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلے جب الیکشن کمیشن نے فارم-11 کے ذریعے ہمیں نتائج دیے تو اس میں ہماری یونین کونسلز کی تعداد 94 تھی اور اس کے بعد جو نتائج دیے گئے اس میں ہماری تعداد 86 ہے جبکہ پیپلز پارٹی کو لیڈنگ پوزیشن دی حالانکہ ان کی لیڈنگ پوزیشن نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بعد میں ہماری تعداد 88 ہوگئی مگر ہمارا مطالبہ ہے کہ فارم گیارہ کو سنجیدہ لے کر ہمارے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے اور صوبائی حکومت کو ریٹرنگ افسران پر اثرانداز نہیں ہونا چاہیے۔

ادھر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے جو بھی جائز خدشات ہیں ان کو دور کیا جائے گا۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ جماعت اسلامی کے جو الیکشن کمیشن سے مسائل ہیں ان پر الیکشن کمیشن سے رابطہ کریں، ہم نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے جو بھی جائز خدشات ہیں ان کو دور کیا جائے گا، جو مسائل سندھ حکومت سے ہیں، ان کو حل کرنے میں سندھ حکومت غیر جانبدارانہ کردار ادا کرے گی۔

یاد رہے کہ 16 جنوری کو کراچی کی 235 یونین کونسلز کے اعلان کردہ نتائج کے مطابق جماعت اسلامی نے 86 نشستیں حاصل کیں تاہم ایک روز بعد انہوں نے مزید 3 نشستوں پر کامیاب ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔

اسی طرح پیپلزپارٹی نے بھی دعویٰ کیا کہ چنیسر گوٹھ کی یونین کونسل نمبر 6 میں دوبارہ گنتی کے بعد پیپلزپارٹی کا امیدوار کامیاب ہوا ہے، قبل ازیں اس یونین کونسل سے جماعت اسلامی کامیاب ہوئی تھی۔

صوبائی الیکشن کمیشن کے ترجمان نے ان دعوؤں کی تصدیق یا تردید سے گریز کرتے ہوئےکہا کہ الیکشن کے نتائج ابھی آنا باقی ہیں، 16 جنوری کو آنے والے نتائج میں پارٹی پوزیشن میں تبدیلی آسکتی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ 16 جنوری کو آنے والے نتائج عارضی تھے اور ان نتائج کو ابھی تک حتمی عمل سے گزرنا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں