افغانستان میں شدید سردی کی لہر، 70 افراد جاں بحق

18 جنوری 2023
افغان محکمہ موسمیات کے مطابق مزید ایک ہفتے تک سردی کی لہر برقرار رہے گی—فوٹو: اے ایف پی
افغان محکمہ موسمیات کے مطابق مزید ایک ہفتے تک سردی کی لہر برقرار رہے گی—فوٹو: اے ایف پی

افغانستان میں خون جما دینے والی سردی کی لہر میں 70 افراد جاں بحق ہوگئے۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق حکام نے بتایا کہ بحران کے شکار افغانستان میں شدید سردی کی لہر جاری ہے اور اب تک 70 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں بحران میں مزید شدت کا خدشہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق کابل سمیت دیگر کئی صوبے 10 جنوری سے شدید سردی کی لپیٹ میں ہیں جہاں اتوار کو کم از کم درجہ حرات منفی 33 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا۔

افغانستان کے محکمہ موسمیات کے سربراہ محمد نسیم مرادی کا کہنا تھا کہ یہ موسم سرما حالیہ تاریخ میں سرد ترین ہے۔

رپورٹ کے مطابق افغانستان کے دور دراز علاقوں میں کئی بے گھر خاندان کیمپوں میں سخت موسم کے رحم و کرم پر ہیں اور کابل میں بھی سردی کی شدت کم کرنے کے لیے کوئلہ یا ہیٹر کی سہولت بھی چند افراد کو میسر ہے۔

محمد نسیم مرادی کا کہنا تھا کہ امکان ہے کہ سردی کی یہ لہر مزید ایک ہفتے یا اس سے زیادہ دنوں تک جاری رہے گی۔

مقامی میڈیا کے مطابق شدید برف باری سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے—فوٹو: اے ایف پی
مقامی میڈیا کے مطابق شدید برف باری سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے—فوٹو: اے ایف پی

افغانستان کی وزارت ڈیزاسٹر منیجمنٹ کا کہنا تھا کہ گزشتہ 8 روز کے دوران 70 افراد جاں بحق اور اسی طرح 70 ہزار مویشی بھی نشانہ بنی ہیں۔

افغانستان کے غریب علاقوں میں مویشی ہی روزگار کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق وسطی اور شمالی صوبوں میں شدید برف باری کے باعث سڑکیں بلاک ہوچکی ہیں اور سوشل میڈیا پر یہ تصاویر بھی گردش کر رہی ہیں۔

—فوٹو: اے ایف پی
—فوٹو: اے ایف پی

خیال رہے کہ افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد طالبان حکومت کے دور میں سردیوں کا یہ دوسرا موسم ہے جہاں بیرونی امداد میں ڈرامائی انداز میں کمی آئی ہے جبکہ امریکا نے کئی اہم ریاستی اثاثے بھی منجمد کردیے ہیں۔

افغانستان جنگ سے نکلنے کے بعد شدید معاشی بحران کا شکار ہے جہاں اقوام متحدہ سمیت دیگر کئی فلاحی ادارے دنیا کے بدترین انسانی بحران کا خدشہ ظاہر کرچکے ہیں۔

امدادی اداروں کے مطابق افغانستان کی 3 کروڑ 80 لاکھ یعنی آبادی کے نصف حصے کو بھوک کا سامنا ہے اور تقریباً 40 لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔

اس سے قبل گزشتہ ماہ افغانستان میں کام کرنے والی کئی این جی اوز نے طالبان کی حکومت کی جانب سے ان کے ساتھ کام کرنے والی خواتین پر پابندی عائد کیے جانے کے خلاف احتجاج کے طور صحت کے علاوہ دیگر شعبوں میں اپنی امدادی سرگرمیاں معطل کردی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں