امریکی اور پاکستانی حکام نے متنبہ کیا کہ یوکرین میں جنگ، مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پاکستان میں خوراک کے ممکنہ بحران کا حقیقی خدشہ موجود ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکام نے واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان ایک ویب لنک کے ذریعے بحث میں حصہ لیتے ہوئے سیلاب کے بعد بحالی کے اقدمات میں بدعنوانی اور بدانتظامی کو روکنے کے لیے تشخیص اور نگرانی کے طریقہ کار کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

بحث کے دوران میزبان ایڈم وائنسٹائن نے پاکستان کو درپیش چیلنجز کو بحران کی واضح مثال قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ کیا اس صورتحال پر پاکستان کو تشویش ہے؟ امریکا میں پاکستان کے سفیر مسعود خان نے جواب دیا کہ ’جی، بالکل ایسا ہی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم یوکرین کی جنگ سے براہ راست متاثر ہوئے اور اس کی وجہ سے گندم اور کھاد کی قلت پیدا ہوگئی جسے ہم یوکرین سے درآمد کرتے تھے، اس کے بعد سے پاکستان حالات کو سنبھالنے کے لیے کوشاں رہا لیکن پھر سیلاب آیا اور حالات مزید خراب ہوگئے‘۔

مسعود خان نے کہا کہ زراعت نہ صرف غذائی تحفظ کے لیے اہم ہے بلکہ پاکستان اس کی برآمدات کے ذریعے تقریباً 4 ارب 40 کروڑ ڈالر بھی کماتا ہے، اسی لیے یہ صورتحال پاکستان کے لیے ایک دھچکا ثابت ہوئی۔

میزبان نے کہا کہ اب تک پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات بنیادی طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ پر مرکوز رہے اور موسمیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات جیسے بڑے مسائل کو نظر انداز کیا گیا۔

ترجیحات تبدیل

اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں یو ایس ایڈ کے ڈائریکٹر برائے ماحولیات و پائیدار ترقی اسٹیو رینیکی نے اشارہ دیا کہ پالیسی بدل رہی ہے اور امریکا اب دیگر مسائل پر بھی توجہ دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ہمارے وقت کے سب سے بڑے عالمی چیلنجز میں سے ایک ہے اور جب آپ کو انسانوں کی پیدا کردہ یا قدرتی آفات (جیسے پاکستان میں سیلاب) سے عدم استحکام لاحق ہو تو اس کے اثرات گزینوں یا عدم تحفظ کی صورت میں امریکا تک پہنچ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات امریکا کے قومی سلامتی اور معاشی مفادات میں ہے کہ وہ پاکستان کی صورتحال پر نظر رکھے اور تعاون کی راہ تلاش کرنے کی کوشش کرے۔

جنیوا میں حال ہی میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والی کانفرنس میں کیے گئے تقریباً 10 ارب ڈالر کے وعدوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے سفیر مسعود خان نے میزبان سے اتفاق کیا کہ تمام وعدے ہمیشہ پورے نہیں ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ حقیقت پسندانہ طور پر بات کریں تو یہ تمام وعدے جو عالمی کانفرنسوں میں کیے جاتے ہیں وہ بہت آسانی سے جلد پورے نہیں ہوجاتے، لیکن جنیوا میں زیادہ تر وعدے کثیرالجہتی اداروں، مثلاً بینکوں کی جانب سے کیے گئے ہیں اور انہوں نے اپنے گزشتہ پروگراموں کو دوبارہ شروع کیا ہے۔

میزبان نے اسٹیو رینیکی کو یاددہانی کرواتے ہوئے سوال کیا کہ امریکا اور چین دونوں ممالک پاکستان میں سیلاب کے بعد بحالی کے اقدامات میں مصروف عمل ہیں، کیا اس حوالے سے دونوں ممالک معاونت کرسکتے ہیں؟

امریکی عہدیدار نے جواب دیا کہ اس وقت یہ کام مساوی انداز میں آگے بڑھ رہا ہے، ہم نے بہت سے کام سنبھالے ہوئے ہیں، ہمارے شراکت دار ہیں جن کے ساتھ ہم ابھی کام کر رہے ہیں اور (چین کے علاوہ) خطے کے دیگر ممالک یہاں ہماری معانت کے لیے موجود ہیں، ہم یقینی طور پر ان کی حمایت کرتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں