تبصرہ: پشتونوں کا نہیں، طالبان کا کلچر

اپ ڈیٹ 06 فروری 2023
ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ میری براداری کے لوگوں نے مجھے تعلیم سے نہیں روکا—فائل فوٹو
ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ میری براداری کے لوگوں نے مجھے تعلیم سے نہیں روکا—فائل فوٹو

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل سفیر منیر اکرم نے افغانستان کے موجودہ حالات پر بریفنگ دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ’ہمارے نکتہ نظر‘ سے افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے خواتین پر پابندیاں زیادہ تر مذہبی حوالے سے نہیں بلکہ پشتون ثقافت کے تناظر میں ہیں جو خواتین کو گھروں تک محدود رہنے کا پابند کرتی ہیں اور یہی افغانستان کی مختلف اور مخصوص ثقافتی حقیقت ہے جو ہزاروں نہیں تو سیکڑوں برسوں سے نہیں بدلی۔

ڈان اخبار میں شائع اپنے تبصرے میں ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ میں بحیثیت پشتون، ایک پاکستانی اور مسلمان ہونے کے ناطے منیر اکرم کے مؤقف سے سخت اختلاف رکھتی ہوں۔ سفیر منیر اکرم، جو کہ اپنے بیان پر معذرت کر چکے ہیں، نے افغان خواتین کو درپیش غیر انسانی بدسلوکی کا الزام پشتون ثقافت پر ڈالنے کی کوشش کی، اگرچہ طالبان اپنے مقاصد کے لیے عقیدے اور ثقافتی ورثے کو توڑ مروڑ کر پیش کر سکتے ہیں لیکن ملک میں خواتین پر سخت پابندی اور ان کے حقوق کی خلاف وزری کے سب سے بڑے ذمہ دار طالبان ہیں اور ملک پر ان کا کنٹرول ہے۔

میں بھی ان پشتونوں میں سے ہوں جس نے لڑکیوں کے حقوق، تعلیم، برابری اور برادری میں امن کا دفاع کرتے ہوئے اپنی زندگی خطرے میں ڈالی۔ افغانستان سمیت پاکستان میں پشتون عوام ’برین واش‘ دہشت گرد گروہ کے ہاتھوں تشدد، ذلت، نقل مکانی اور موت کا شکار ہو چکے ہیں۔

بحیثیت لڑکی میں اسکول گئی، میں نے کار مکینک، ڈاکٹر اور یہاں تک کہ وزیراعظم بننے کے خواب دیکھے اور میرے والد جو کہ ایک پشتون ہیں انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی کہ جتنا ہوسکے میں تعلیم حاصل کروں تاکہ اپنے مستقبل کا انتخاب خود کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کو درپیش مشکلات کے خلاف سرعام بات کر سکوں۔ میری براداری کے لوگوں نے مجھے تعلیم سے نہیں روکا مگر وہ پاکستانی طالبان تھے جنہوں نے لڑکیوں کی تعلیم، خواتین کے باہر نکلنے، مردوں کے داڑھی بنانے، فن، موسیقی سمیت ہر اس چیز پر پابندی عائد کر رکھی تھی جس کا وہ انتخاب کرتے تھے۔

افغانستان میں بہت سی پشتون خواتین اور مردوں نے تاجک، ہزارہ، ازبک اور دیگر لوگوں کے ساتھ لڑکیوں کے اسکولوں اور حقوق کی بات کرنے والی تنظیموں کے نیٹ ورکس بنانے میں دہائیاں گزار دی ہیں اور وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو آج بھی اپنے ملک کی سڑکوں پر احتجاج کرنے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال رہے ہیں جنہوں نے لڑکیوں کی ایسی پرورش کی ہے جو خاموش نہیں رہیں گی جہاں ان سے ملازمت کرنے، سفر کرنے، پڑھنے اور کھیلنے جیسے حقوق چھین لیے گئے ہیں۔

ایسا نہیں کہ پشتون سماج بالکل ٹھیک ہے، اس میں خواتین کو کئی سخت پابندیوں کا سامنا ہے جہاں لڑکیاں تعلیم کے حق سے محروم ہیں اور متعدد لڑکیوں کی نوعمری میں شادی کردی جاتی ہے۔ اکثر خواتین کو دوسرے درجے کے شہری کے طور پر دیکھا جاتا ہے، مردوں نے ان کو ان کی قدر اور ان کے حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ جس طرح لوگ ثقافت بناتے ہیں وہی لوگ اسے بھی بدل سکتے ہیں، آج ہم افغانستان اور پاکستان کی کمیونٹیز میں صنفی مساوات کے لیے مل کر کام کرنے والی خواتین اور مردوں میں ایسی تبدیلی دیکھ سکتے ہیں جہاں طالبان اور دیگر انتہا پسند گروہ ہمیں پیچھے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پچھلے دو سالوں میں، میں نے پاکستان میں بہت سے رہنماؤں سے بات کی ہے کہ کیسے افغان خواتین اور لڑکیوں کی مدد کی جائے۔ ان میں سے کئی پیچھے ہٹ گئے یا صورتحال سے لاتعلق نظر آئے۔ ستمبر 2021 میں، طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ایک پاکستانی اہلکار نے مجھے بتایا کہ ’افغانستان پہلے کی نسبت اب زیادہ پرامن ہے۔‘ لیکن زیادہ پرامن کس کے لیے؟ یقینی طور پر ان خواتین اور لڑکیوں کے لیے نہیں جو اپنی آزادی، کام کرنے کا اور تعلیم کا حق کھو رہی ہیں۔ میں نے جواب دیا، ’پورے احترام کے ساتھ، مجھے نہیں لگتا کہ آپ یا میں یا اس کمرے میں موجود کوئی بھی اپنی مرضی سے افغانستان میں رہنے کے لیے جائے گا، ایک دن کے لیے بھی نہیں۔‘

اگر سفیر منیر اکرم اور دنیا بھر کے رہنماؤں کو حقیقت میں افغان عوام کے انسانی حقوق کا خیال ہے تو انہیں متحد ہوکر ایک آواز میں بات کرنی چاہیے اور خواتین سے متعلق بنیادی حقوق پر طالبان کو کسی بھی سمجھوتے کی پیش کش نہیں کرنی چاہیے بلکہ ان سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم، ملازمتوں اور دیگر بنیادی حقوق پر عائد پابندیاں واپس لیں۔ انہیں طالبان حکومت کی طرف سے بھوک اور بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کو امداد فراہم کرنے کے لیے راستے تلاش کرنا بھی جاری رکھنا چاہیے۔ سب سے زیادہ، انہیں تمام نسلوں اور ثقافتوں کی افغان خواتین کو شامل کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کی آوازیں ان کے ملک کے مستقبل کے بارے میں کسی بھی مذاکرات کا حصہ ہوں۔

20 ویں صدی کے آغاز میں امن پسند پشتون باچا خان نے انگریز راج کے خلاف جدوجہد کی قیادت کی اور ایک پرامن، مذہبی ہم آہنگی اور خواتین کے ساتھ برابری کا سماج تعمیر کرنے کا خواب دیکھا۔ جب میں سوچتی ہوں کہ گزشتہ دو برسوں میں میری افغان بہنوں کی زندگی کیسے بدل گئی ہے تو مجھے باچا خان کے الفاظ یاد آتے ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ ’اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ ثقافت کتنی مہذب ہے، تو یہ دیکھیں کہ خواتین کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے‘۔


ملالہ یوسفزئی سوات سے تعلق رکھنے والی فاضل آکسفورڈ اور نوبیل امن انعام یافتہ ہیں۔ انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ملالہ فنڈ کی بھی مشترکہ بنیاد رکھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں