کراچی پولیس آفس پر حملہ: تفتیش کاروں کو دہشت گردی میں ’اندرونی مدد‘ کا شبہ

اپ ڈیٹ 20 فروری 2023
عرفان بلوچ نے کہا تیسرے عسکریت پسند کی شناخت تاحال نہیں ہوسکی ہے — فوٹو: اے پی پی، شکیل عادل، وائٹ اسٹار
عرفان بلوچ نے کہا تیسرے عسکریت پسند کی شناخت تاحال نہیں ہوسکی ہے — فوٹو: اے پی پی، شکیل عادل، وائٹ اسٹار

کراچی پولیس آفس (کے پی او) پر جمعے کے روز ہونے والے حملے کا مقدمہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف درج کیے جانے کے باوجود پولیس اور دیگر خفیہ ایجنسیاں حملہ کرنے والے تینوں عسکریت پسندوں کے ماسٹر مائنڈ اور ان کے سہولت کاروں کے بارے میں کوئی ٹھوس اور مصدقہ معلومات تک رسائی میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔

واضح رہے کہ 17 فروری (جمعے) کے رزو تین دہشت گردوں نے شاہراہ فیصل پر قائم کراچی پولیس آفس پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں پولیس اور رینجرز اہلکاروں سمیت 5 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 18 زخمی ہوگئے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تحقیقاتی ادارے کے ارکان میں سے ایک ڈی آئی جی ساؤتھ عرفان علی بلوچ نے ڈان کو بتایا کہ تفتیش کار اس پہلو پر غور کر رہے ہیں کہ عسکریت پسندوں یا ان کے سہولت کاروں کو اندر سے مدد ملی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس معاملے کو مختلف زاویوں سے دیکھ رہے ہیں، تحقیقات کا خاص پہلو یہ نکتہ ہے کہ وہ مقام جہاں سے عسکریت پسندو خاردار تاریں کاٹ کر عمارت کے اندر داخل ہوئے، وہ سی سی ٹی وی کیمروں کی نگرانی میں نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دکھایا گیا کہ ہیلمٹ پہنے 2 نامعلوم افراد نے تینوں عسکریت پسندوں کو کے پی او کے باہر الوداع کیا اور حملہ شروع ہونے سے قبل ہی موٹر سائیکل پر وہاں سے چلے گئے۔

ڈی آئی جی عرفان بلوچ نے کہا کہ حملے کے دوران مارے جانے والے تیسرے عسکریت پسند کی شناخت تاحال نہیں ہوسکی ہے۔

واضح رہے کہ کراچی پولیس آفس پر دہشت گردی کے حملے میں شہید ہونے والوں کی تعداد گزشتہ روز 5 ہوگئی تھی جبکہ حملہ آوروں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت سی ٹی ڈی تھانے میں مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔

ترجمان سندھ پولیس کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق کراچی پولیس آفس پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے میں زخمی ہونے والے 50 سالہ پولیس اہلکار عبدالطیف زخموں کے تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔

ترجمان کے مطابق عبدالطیف 2014 میں سابق آرمی کوٹا پر پولیس میں بھرتی ہوئے تھے اور اسپیشل سیکیورٹی یونٹ میں فرائض سرانجام دے رہے تھے۔

شہید اہلکار کے اہل خانہ میں ان کی اہلیہ، 6 بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہے۔

شہید پولیس اہلکار کی نماز جنازہ پولیس ہیڈکوارٹر گارڈن میں ادا کی گئی جس میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، چیف سیکریٹری سندھ، انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) سندھ غلام نبی میمن اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی تھی۔

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور آئی جی سندھ غلام نبی نے شہید اہلکار کے اہل خانہ سے ملاقات کرکے ان کی بہادری کی داد دی۔

یاد رہے کہ اس حملے کے فوراً بعد پولیس، آرمی اسپیشل سروس گروپ، پاکستان رینجرز سندھ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تین گھنٹوں تک دہشت گردوں کا مقابلہ کیا جس کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے تینوں دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔

حملہ آوروں میں سے دو کی شناخت ہو گئی ہے جب کہ ہلاک ہونے والے تینوں دہشت گردوں نے خودکش جیکٹس پہنی ہوئی تھیں، حملہ آوروں میں سے ایک نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جب کہ 2 دیگر دہشت گردوں کو سیکیورٹی فورسز نے گولی مار کر ہلاک کیا، فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے دہشت گردوں نے بھی خودکش جیکٹس پہن رکھی تھیں جن میں سے ہر جیکٹ کا وزن تقریباً 7 سے 8 کلوگرام تھا۔

سی ٹی ڈی افسر راجا عمر خطاب نے بتایا تھا کہ ہلاک ہونے والے 2 دہشت گردوں کی شناخت ہوگئی جن میں ایک تقریباً 22 سال کفایت اللہ تھا جس کا تعلق لکی مروت تھا جب کہ دوسرے دہشت گرد 20 سالہ ظالا نور کا تعلق شمالی وزیرستان سے تھا۔

راجا عمر خطاب کے مطابق تیسرے عسکریت پسند کی شناخت کے لیے کوششیں جاری ہیں، نجی نیوز چینل ’جیو‘ نے کفایت اللہ کے اہل خانہ کے حوالے سے بتایا کہ وہ 5 ماہ قبل افغانستان فرار ہو گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں