دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے بھتے کی رقوم استعمال کی جارہی ہیں، سیکیورٹی حکام

اپ ڈیٹ 21 فروری 2023
عسکریت پسندوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اور وہ شہریوں کے بجائے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں — فائل/فوٹو: رائٹرز
عسکریت پسندوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اور وہ شہریوں کے بجائے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں — فائل/فوٹو: رائٹرز

پشاور کے ایک سینیئر سیکیورٹی عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ دہشت گرد لوگوں سے بھتے کے ذریعے لی جانے والی رقوم سے ملک میں اپنی کارروائیاں کررہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ پولیس میں درج ہونے والی بھتے کی شکایات کے مطابق یہ رقم مجموعی طور پر ایک ارب 6 کروڑ روپے کے قریب بنتی ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ اصل رقم، رپورٹ ہونے والی رقم سے کئی زیادہ ہے کیوں کہ بہت سے لوگ دہشت گردوں کے حملوں کے خوف سے پولیس میں شکایت درج نہیں کراتے اور بھتا دے دیتے ہیں۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ اگست 2021 میں امریکی اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگنے والا اسلحہ 15 سال تک جنگ لڑنے کے لیے کافی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اسلحے میں اسنائپر گنز، تھرمل ویپن سائٹ اور دیگر جدید آلات شامل ہیں جنہیں پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف حملوں میں استعمال کیا جارہا ہے۔

سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اکتوبر 2022 کے بعد سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف حملوں میں تیزی آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صرف جنوری 2023 میں مجموعی طور پر 80 حملے ہوئے جس میں سے 62 کا نشانہ قانون نافذ کرنے والے ادارے تھے اور ان کے نتیجے میں 100 سے زائد اہلکار مارے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ذرائع نے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے کیونکہ وہ ماضی کے برعکس جب وہ عام شہریوں پر حملہ کرتے تھے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنا کر پولیس کو دفاعی موڈ پر رہنے پر مجبور کررہے ہیں، جس سے سڑکوں پر گشت کم ہو گا اور بالآخر سٹریٹ کرائمز کی شرح میں اضافہ ہو گا۔

دوسری جانب خیبرپختونخوا کے نو تعینات شدہ انسپکٹر جنرل پولیس اختر حیات گنڈا پور نے کہا کہ وہ محکمہ انسداد دہشت گردی کی تنظیم نو، ٹیکنالوجی کے استعمال اور دہشت گردی سے لڑنے کے لیے پولیس کی صلاحیتوں میں اضافہ یقینی بنائیں گے۔

سینٹرل پولیس آفس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پولیس سربراہ نے کہا کہ ’بڑی رقم کے مقابلے میں چھوٹی رقم کی فکر کرنے کا کوئی مقصد نہیں، ہم شہدا کے لواحقین کو ایک کروڑ روپے معاوضہ دینے کو تیار ہیں لیکن زندگیاں بچانے کے لیے معقول رقم خرچ نہیں کرتے‘۔

آئی جی کا مزید کہنا تھا کہ مزید افسران کی بھرتیوں اور وسائل کو استعمال کرتے ہوئے سی ٹی ڈی اور اسپیشل بانچ کی تنظیم نو اولین ترجیح ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ہم ماہانہ اعداد و شمار دیکھیں اور اسے 12 سے ضرب دیں تو شاید ہم 2008 کی سطح پر ہیں جب دہشت گردی اپنے عروج پر تھی، امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہوچکی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں