طورخم سرحد بدستور بند، کروڑوں روپے مالیت کی اشیائے خور و نوش خراب ہونے کا خدشہ

22 فروری 2023
ارشاد مومند نے کہا کہ افغان حکومت نے یکطرفہ طور پر بارڈر کراسنگ کو بند کیا تھا—تصویر: رائٹرز
ارشاد مومند نے کہا کہ افغان حکومت نے یکطرفہ طور پر بارڈر کراسنگ کو بند کیا تھا—تصویر: رائٹرز

پاکستان اور افغانستان کے سرحدی حکام کے درمیان مذاکرات شروع کرنے پر تعطل ہونے کے باعث طورخم بارڈر منگل کو مسلسل تیسرے روز بھی بند رہا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر ارشاد مومند نے بتایا کہ اگر افغانستان کی جانب سے سرحد کو دوبارہ کھولنے کی باضابطہ درخواست کی گئی تو وہ ’ایک قدم آگے بڑھنے‘ کے لیے تیار ہیں۔

ارشاد مومند نے کہا کہ انہوں نے (افغان حکومت) نے یکطرفہ طور پر بارڈر کراسنگ کو بند کیا تھا اور اگر وہ سرحد کو دوبارہ کھولنا چاہتے ہیں تو اصولی طور پر بات چیت وہ شروع کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پیر کے فائرنگ کے واقعے کے بعد سرحد پر تعینات اضافی فورسز کو واپس بلا لیا گیا تھا جبکہ افغانستان نے بھی منگل کو اپنی کمک واپس بلا کر ردِ عمل دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک مثبت علامت ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ بہتر احساس غالب ہو گا‘۔

دریں اثنا ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ افغان طالبان کے حکام کے ساتھ کچھ غیر رسمی رابطے کیے گئے اور ان پر زور دیا گیا کہ وہ مذاکرات کے لیے ایک وفد بھیجیں۔

مقامی تاجر برادری اور ٹرانسپورٹرز نے بارڈر کراسنگ کو فوری طور پر دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ کروڑوں روپے مالیت کی اشیائے خور و نوش خراب ہونے کا خطرہ ہے۔

ٹرانسپورٹر یونین کے نمائندے حاجی عظیم اللہ شنواری اور مقامی کلیئرنگ ایجنٹ قاری نظیم اللہ نے بتایا کہ کٹاکوشٹھا سے طورخم تک سڑک کے کنارے تقریباً 17 کلومیٹر تک سیکڑوں گاڑیاں کھڑی ہیں، جس سے ٹرانسپورٹرز کی سیکیورٹی کو بھی خطرہ ہے۔

خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق طالبان کی جانب سے اتوار کو سرحد کی بندش کی وجہ پوری طرح واضح نہیں تھی، البتہ دونوں اطراف کے حکام نے کہا تھا کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں