شادی کیلئے کم سے کم عمر کی حد کا قانون اسلام سے متصادم نہیں، شرعی عدالت

اپ ڈیٹ 07 مارچ 2023
یہ درخواست علی اظہر نامی شہری کی جانب سے دائر کی گئی تھی—فائل فوٹو: شر اسٹاک
یہ درخواست علی اظہر نامی شہری کی جانب سے دائر کی گئی تھی—فائل فوٹو: شر اسٹاک

وفاقی شرعی عدالت نے ’سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013‘ کے خلاف درخواست خارج کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون اسلامی احکامات سے متصادم نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی شرعی عدالت نے مشاہدہ کیا کہ شادی کے لیے کم از کم عمر مقرر کرنے کا اقدام اسلامی احکامات کے عین مطابق ہے جیسا کہ قرآن پاک اور سنت میں بیان کیا گیا ہے۔

قائم مقام چیف جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین ایم شیخ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے مزید کہا کہ درخواستوں میں اٹھائے گئے کچھ سوالات سماجی اقدار سے متعلق ہیں جبکہ کچھ پہلو منتخب نمائندوں سے غور و خوض کا مطالبہ کرتے ہیں۔

یہ درخواست علی اظہر نامی شہری کی جانب سے دائر کی گئی تھی، جس نے 2020 میں مبینہ طور پر ایک نابالغ عیسائی لڑکی سے اسلام قبول کرنے کے بعد شادی کی تھی۔

سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ لڑکی کے لیے قانونی طور پر شادی کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ نابالغ ہونے کے سبب اس کی رضامندی کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے، عدالت نے پولیس کو ہدایت کی کہ اس کے مبینہ شوہر کے خلاف قانون کی خلاف ورزی پر کارروائی کی جائے۔

زیر بحث قانون کے تحت سندھ میں 18 سال سے کم عمر کے کسی بھی نابالغ شہری کی شادی پر پابندی ہے اور ایسا کرنے والے مرد اور دونوں فریقین کے والدین یا سرپرست کے لیے سزائیں بھی طے ہیں۔

قرآن پاک اور احادیث کی بعض آیات کو بنیاد بنا کر درخواست گزار نذر تنولی کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ مرد اور عورت دونوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کرنا اسلام کے احکام کے خلاف ہے۔

لیکن سندھ کے ایک اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل صغیر احمد عباسی نے دلیل دی کہ سندھ ہائی کورٹ 1929 کے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کے خلاف دائر ’ریاست بمقابلہ فاروق عمر بھوجا‘ کے کیس میں ایک اسی طڑھ کی درخواست پہلے ہی خارج کر چکی ہے، اس کیس میں درخواست گزار نے استدعا کی تھی کہ عدالت لڑکیوں کی کم از کم شادی کی عمر 16 برس مقرر کرے۔

بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اسلامی قانون کے تحت شادی کے لیے صرف ایک ضروری عنصر بلوغت ہے، دیگر معاملات مالی بہبود، صحت اور ذہنی پختگی سے متعلق ہیں۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ’شادی کے لیے کم از کم عمر مقرر کرنا اسلام کے احکام کے مطابق ہے کیونکہ اس طرح کی کم از کم عمر کی حد کا تعین لڑکیوں کو بنیادی تعلیم مکمل کرنے کے لیے مناسب وقت فراہم کرتا ہے جوکہ عموماً کسی شخص میں ذہنی پختگی پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے‘۔

درخواست گزار کے وکیل کا استدلال تھا کہ کچھ بوڑھے یا غریب والدین اپنی کم عمر بیٹیوں کی شادی ان کی بھلائی کے لیے کر دیتے ہیں، تاہم اس کے جواب میں بینچ نے کہا کہ اس نکتے کو صرف کچھ غیرمعمولی کیسز میں ہی مدنظر رکھا جا سکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں