8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر لاہور میں سیکڑوں خواتین سڑکوں پر نکل آئیں اور مساوی حقوق کے علاوہ تنخواہوں میں صنفی تقسیم جیسے مسائل کو اجاگر کیا، خواتین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ بھی اٹھائے ہوئے تھے جس میں کئی قسم کے نعرے درج تھے۔

مارچ کے شرکا میں اداکارہ عفت عمر نے بھی شرکت کی جس میں انہیں پلے کارڈ اٹھائے دیکھا جاسکتا ہے۔

پلے کارڈ میں لکھا تھا کہ ’کام پورا تو اجرت آدھی کیوں؟‘

نجی میڈیا ویب سائٹ ایکسپریس ٹریبیون لائف اسٹائل کی جانب سے عفت عمر کی پلے کارڈ اٹھائے تصویر بھی شیئر کی گئی۔

اداکارہ ملازمت پیشہ مردوں اور خواتین کی تنخواہوں میں غیر منصفانہ خلیج کے خلاف آواز اٹھا رہی تھیں۔

اسی پوسٹ پر ایک صارف نے عفت عمر کو ٹیگ کرتے ہوئے کہا کہ ’کیونکہ آپ کو اداکاری نہیں آتی‘۔

جس پر اداکارہ نے جواب دیا کہ ’اگر مجھے اداکاری نہیں آتی تو کام لے کر میرے پیچھے کیوں پڑتے ہیں، اگر پاکستان میں تنخواہوں میں صنفی تقسیم کو مذاق سمجھتے ہیں تو میں کام کرنے سے منع کردیتی ہوں۔‘

انہوں نے صارف پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’مجھے تو اداکاری نہیں آتی لیکن ماہرہ خان کو بھی فواد خان جتنا معاوضہ نہیں دیا جاتا، آپ جیسی خواتین سب سے بڑی مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہیں جو بنیادی انسانی حقوق کا مطالبہ کرنے والی دوسری خواتین کی حمایت نہیں کرتیں۔

تاہم انسٹاگرام پوسٹ پر کئی صارفین نے اداکارہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

ایک اور صارف نے لکھا کہ ’ آپ ان سے کہیں جنہوں نے آپ کے پورے کام کا آدھا معاضہ دیا ہے’۔

یاد رہے کہ کراچی سمیت ملک کے تمام شہروں میں ہر سال عالمی یوم خواتین کے موقع پر 8 مارچ کو عورت مارچ کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں مختلف شعبہ ہائے جات سے تعلق رکھنے والی خواتین سمیت مرد حضرات بھی بڑی تعداد میں شرکت کرتے آئے ہیں۔

اس سال بھی اسلام آباد، لاہور اور حیدرآباد سمیت ملک کے دیگر شہروں میں بھی 8 مارچ کو عورت مارچ کے پروگرامات منعقد کیے گئے، تاہم کراچی میں 12 تاریخ کو پروگرام منعقد کیا جائے گا۔

عورت مارچ کو ان کے شرکا کی جانب سے متنازع اور قابل اعتراض نعروں کی وجہ سے گزشتہ چند سال سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور عام خواتین بھی عورت مارچ کے شرکا کی جانب سے قابل اعتراض نعروں کے بینرز پر اعتراض کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

ملک بھر میں عورت مارچ کے موقع پر سوشل میڈیا سمیت ٹی وی چینلز اور عام پروگرامات میں خواتین کی خودمختاری اور سماجی تحفظ سے متعلق بحث بڑھ جاتی ہے اور بعض اوقات یہ بحث تنازع کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں