بھارت کی پولیس نے مشرقی ریاست بہار میں ایک مسلمان شہری کی موت کے سلسلے میں 3 افراد کو گرفتار کرلیا ہے، جن پر گائے کا گوشت لے جانے کے شبہے میں حملہ کیا گیا تھا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق 56 سالہ نسیم قریشی کو رواں ہفتے کے اوائل میں گائے کا گوشت لے جانے کے شبہے میں ایک ہجوم نے حملہ کر دیا تھا، جو بعد ازاں دم توڑ گئے تھے، ملک کے کچھ حصوں میں مقامی حکومتوں نے گوشت کی فروخت اور استعمال پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

گائے ہندو مت میں مقدس ہے اور ان لوگوں پر اکثر حملے ہوتے رہے ہیں جن پر گوشت یا چمڑے کے لیے گائے ذبح کرنے کا الزام ہوتا ہے، ان میں خاص طور پر اقلیتی مسلم آبادی سے تعلق رکھنے والے یا بھارت کے قدیم ذات پات کے نظام کے نچلے حصے پر رہنے والے شامل ہیں۔

سخت گیر ہندو گروپ بھارت میں گائے کے ذبح پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے خود ساختہ ہندو گائے کے محافظ گروپوں نے خود اس قانون کو نافذ کرنا شروع کر دیا ہے۔

بھارتی ریاست بہار میں اس وقت ایک علاقائی پارٹی کی حکومت ہے اور مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپوزیشن میں ہے۔

پولیس کی جانب سے عدالت میں بیان کے مطابق تازہ ترین واقعے میں متاثرہ شخص کو مبینہ طور پر 20 سے زائد افراد نے گھیر کر حملہ کیا۔

بیان میں بتایا گیا کہ پولیس نے مداخلت کی لیکن نسیم قریشی ہسپتال جاتے ہوئے دم توڑ گیا۔

بہار کے رسول پور پولیس اسٹیشن کے سربراہ رام چندر تیواری نے فون پر بتایا کہ تین لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

اموات

گزشتہ مہینے بھارتی پولیس نے مبینہ طور پر گائے کی اسمگلنگ کے الزام میں 2 مسلمانوں کو قتل کرنے کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کیا تھا۔

35سالہ جنید اور 27سالہ ناصر بدھ کو لاپتا ہوئے تھے اور ان کی لاشیں ایک دن بعد ریاست ہریانہ میں ایک جلی ہوئی گاڑی سے انتہائی بری حالت میں ملی تھیں۔

دونوں افراد کا تعلق ریاست راجستھان سے تھا اور ان کے لاپتا ہونے کے بعد ان کے اہل خانہ نے پولیس میں درج شکایت میں انتہا پسند تنظیم بجرنگ دل سے تعلق رکھنے والے 5 افراد کو نامزد کیا تھا۔

پولیس افسر شیام سنگھ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم نے اب تک ایک ملزم کو گرفتار کیا ہے اور مزید ملزمان کو تلاش کر رہے ہیں۔

ہندوستان ٹائمز نے رپورٹ کیا تھا کہ مرکزی مشتبہ ملزم نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے واقعے میں ملوث ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ بھارت پور کے انسپکٹر جنرل گورو شری واستو نے کہا کہ جنید کے خلاف گائے کی اسمگلنگ کے مقدمات درج کیے گئے تھے البتہ ناصر کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں تھا۔

راجستھان کے وزیر زاہد خان نے متاثرہ خاندانوں کے گھر کا دورہ کیا تھا اور لواحقین کو فی کس 20 لاکھ روپے دینے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ کہا کہ ریاستی حکومت دونوں خاندانوں کے ایک فرد کو نوکری دینے کی کوشش کرے گی۔

راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوٹ نے ٹوئٹر پر دونوں افراد کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

ناقدین نے مودی حکومت پر اس طرح کے حملوں میں ملوث عناصر اور گائے کے تحفظ کے الزام میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف آنکھیں بند کرنے اور کوئی کارروائی نہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

واضح رہے کہ راجستھان اور ہریانہ میں گائے ذبح کرنے پر پابندی ہے اور ان دونوں ریاستوں سے گائے کو سرحد پار کسی اور ریاست منتقل کرنے کے لیے اجازت نامہ لینا لازمی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں