پی ٹی آئی کی زمان پارک سے داتا دربار تک ریلی، عمران خان کا 19 مارچ کو مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان

اپ ڈیٹ 14 مارچ 2023
عمران خان نے ریلی داتا دربار پہنچنے پر گاڑی میں بیٹھ کر کارکنوں سے خطاب کیا — فوٹو: ڈان نیوز
عمران خان نے ریلی داتا دربار پہنچنے پر گاڑی میں بیٹھ کر کارکنوں سے خطاب کیا — فوٹو: ڈان نیوز
انتخابی ریلی کی قیادت عمران خان کر رہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز
انتخابی ریلی کی قیادت عمران خان کر رہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز
ضلعی انتظامیہ نے پاکستان تحریک انصاف کو  مشروط طور پر ریلی نکالنے کی اجازت دی تھی — فائل/فوٹو: اے ایف پی
ضلعی انتظامیہ نے پاکستان تحریک انصاف کو مشروط طور پر ریلی نکالنے کی اجازت دی تھی — فائل/فوٹو: اے ایف پی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کی جانب سے زمان پارک سے داتا دربار تک انتخابی ریلی نکالی گئی جہاں انہوں نے 19 مارچ (اتوار) کو مینار پاکستان میں جلسے کا اعلان کردیا۔

عمران خان کی زیرقیادت پی ٹی آئی کی ریلی داتا دربار پہنچی جہاں انہوں نے گاڑی میں بیٹھ کر کارکنوں سے خطاب کیا اور ریلی میں شرکت پر کارکنوں کا شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے اعلان کیا کہ اگلے اتوار کو دوپہر 2 بجے مینار پاکستان میں جلسہ کریں گے، یہ جلسہ دن کی روشنی میں ہوگا، مینار پاکستان میں پچھلے 12 سال میں میرا یہ چھٹا جلسہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں جلسے میں بتاؤں گا کہ کیسے اپنے ملک کو اس دلدل سے نکالنا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ آج کی ریلی سے یہ چیز واضح ہوئی کہ امپورٹڈ حکومت نے ہمیں ریلی کی اجازت کیوں نہیں دی۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے 8 مارچ کو ریلی کے دوران جاں بحق ہونے والے کارکن علی بلال عرف ظل شاہ کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ نگراں حکومت نے فورس کو استعمال کرتے ہوئے ریلی روک دی جو 30 اپریل کو شیڈول انتخابات کی مہم کا آغاز تھی۔

انہوں نے کہا کہ ظل شاہ کے قاتلوں کو قوم کی جانب سے یہ پیغام دے رہا ہوں کہ میں اور میری قوم اس وقت تک یہ کبھی نہیں بھولے گی اور نہ ہی آپ کو معاف کرے گی جب تک ان پولیس اہلکاروں اور ان پر تشدد کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا اور میں ان کو سزا دوں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت انتخابات سے بھاگ رہی ہے، میرے اور پی ٹی آئی کے عہدیداروں کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں تاکہ کسی طرح ہمیں انتخابات سے نااہل کردیا جائے۔

کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے توشہ خانہ کی سامنے آنے والی تفصیلات کے بارے میں کہا کہ اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ اصل میں توشہ خانہ کون لوٹ رہا تھا۔

اس سے قبل عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کی ریلی زمان پارک سے داتا دربار کی طرف روانہ ہوئی جہاں کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

ریلی ابتدائی طور ہفتے کو نکالنے کا اعلان کیا گیا پھر اتوار کا دن رکھا گیا لیکن پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے عین وقت پر اسے منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا کیونکہ نگراں حکومت کی جانب سے لاہور میں اجتماعات پر پابندی عائد کرتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی تھی۔

پنجاب کی نگران حکومت نے قذافی اسٹیڈیم لاہور میں جاری پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے میچوں اور شیڈول ایک میراتھن ریس کا حوالہ دیتے ہوئے دفعہ 144 کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔

بعد ازاں لاہور کی مقامی انتظامیہ کی جانب سے پی ٹی آئی کو آج ریلی نکالنے کی مشروط اجازت دے دی گئی تھی۔

عمران خان کی زیر قیادت ریلی کے حوالے سے پی ٹی آئی آفیشل ٹوئٹر پیج پر جاری بیان میں کہا گیا کہ چیئرمین عمران خان ریلی کی قیادت کے لیے روانہ ہو گئے۔

پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ انتظامیہ نے ریلی کے روٹ کے علاوہ ملحقہ سڑکوں پر کنٹینر لگا دیے گئے ہیں، تمام کارکن پیدل ریلی میں شامل ہوں۔

قبل ازیں پی ٹی آئی کے سینئر نائب صدر شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ چیئرمین عمران خان اب سے کچھ ہی دیر بعد انتخابی مہم کے سلسلے میں ریلی کی قیادت کریں گے۔

انہوں نے کہا تھا کہ زمان پارک میں ریلی کے اختتام پر چیئرمین عمران خان قوم سے خطاب میں ایک اہم اعلان کریں گے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے اعلان کردہ ریلی کا روٹ بھی جاری کردیا گیا تھا، ریلی کا آغاز زمان پارک سے ہونا تھا، زمان پارک سے شروع ہوکر ریلی دھرم پورہ چوک ،گڑھی شاہو چوک، بوہڑ والا چوک پہنچنی تھی۔

ریلی ریلوے اسٹیشن، سرکلر روڈ، دوموریا پُل، دلی گیٹ، شاہ عالمی گیٹ، لوہاری گیٹ، اردو بازار، بھاٹی گیٹ سے ہوتے ہوئے داتا دربار پر اختتام پذیر ہوئی۔

ریلی کے روٹ پر موجود سرکلر روڈ کی مارکیٹیں بند رکھنے کا حکم جاری کیا گیا تھا، ضلعی انتظامیہ نے سرکلر روڈ کی تمام مارکیٹیوں کو دوپہر 2 بجے کے بعد بند کرنے کا حکم دیا تھا، سرکلر روڈ پر عمران خان کی ریلی کو سیکیورٹی تھریٹ کی وجہ سے مارکیٹ بند کرنے کا حکم دیا گیا۔

پی ٹی آئی قیادت بالخصوص پنجاب سے ریلی میں شریک تھی۔

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ اس وقت لاہور میں ریلی کے مناظر دیکھیں اور سمجھیں عمران خان کو روکنا عوامی فیض و غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے ، لوگوں کے آگے احمق کھڑے ہوتے ہیں عقلمند عوام کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔

دوسری جانب ضلعی انتظامیہ نے پاکستان تحریک انصاف کو مشروط طور پر ریلی نکالنے کی اجازت دے دی۔

ڈپٹی کمشنر لاہور رافعہ حیدر کی جانب سے تحریک انصاف کو ریلی نکالنے کی مشروط اجازت دینے کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا گیا۔

ضلعی انتظامیہ نے تحریک انصاف کو پابندی کیا ہے کہ ریلی میں عدلیہ اور اداروں کی خلاف تقاریر کی اجازت نہیں ہوگی، سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے فوکل پرسن اور پی ٹی آئی ذمہ داران ضلعی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کریں گے۔

نوٹی فکیشن کے مطابق ٹریفک میں خلل نہ ڈالنے اور رواں دواں رکھنے کے لیے پی ٹی آئی ذمہ داران ضلعی انتظامیہ اور ٹریفک پولیس کے ساتھ بھی مکمل تعاون کریں گے، ریلی کی صورت میں پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچنے کی صورت میں پی ٹی آئی کے متعلقہ منتظمین ذمہ دار ہوگی، ساؤنڈ سسٹم کے استعمال سے متعلق قانون کی پاسداری کی جائے گی، پارٹی رضا کار انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔

ضلعی انتظامیہ نے کہا ہے کہ ریلی کے باعث کسی بھی جگہ کاروباری مراکز کو بند کرنے اور نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہو گی، کارکن اور تمام متعلقہ افراد ڈنڈے یا اس سے متعلقہ کوئی چیز ساتھ نہیں لا سکیں گے، ریلی کے دوران کسی کے جذبات و احساسات مجروح نہیں ہوں گے، ریلی کے لیے کسی جگہ کوئی استقبالیہ کیمپ نہیں لگائے جائیں گے، روٹ پر بھی کسی طرح کی وال چاکنگ نہیں ہوگی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز نگران حکومت پنجاب کی جانب سے لاہور میں دفعہ 144 نافذ کرنے کے فیصلے کے بعد سابق وزیراعظم نے ریلی ملتوی کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

اس سے قبل یعنی 8 مارچ کو بھی لاہور میں ریلی نکالنے کا اعلان کیا تھا جب کہ انتظامیہ کی جانب سے دفعہ 144 نافذ کرنے کے بعد پولیس نے کریک ڈاؤن کیا جس کے دوران ایک کارکن ہلاک ہوگیا تھا۔

دفعہ 144 نافذ کرنے پر الیکشن کمیشن کا نگران حکومت پنجاب کو خط

ادھر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے لاہور جلسے اور دفعہ 144 کے نفاذ سے متعلق درخواست پر غور کرتے ہوئے پنجاب حکومت سے رپورٹ طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے کہا گیا کہ چیف سیکرٹری کو ایک خط جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ کمیشن آئین کے تحت شفاف اور پرامن انتخابات کرانے کا پابند ہے، اس طرح پی ٹی آئی کی درخواست پر غور کرنے کے بعد کل تک ایک جامع رپورٹ پیش کی جائے تاکہ مزید لائحہ عمل پر غور کیا جا سکے۔

تبصرے (0) بند ہیں