زبیدہ مصطفیٰ
زبیدہ مصطفیٰ

حال ہی میں ایک واقعے کا بہت چرچا ہوا جس میں اسکول کے ایک طالب علم کے چہرے پر استاد نے سیاہ نشان لگایا اور پوری جماعت سے کہا کہ وہ اس بچے کو شرمندہ کریں۔ اس بچے کی آخر غلطی کیا تھی؟ غلطی یہ تھی کہ اس نے انگریزی میڈیم اسکول میں اردو زبان میں بات کی تھی۔

یہ ایک چونکا دینے والا واقعہ تھا اور اس چھوٹے سے بچے کو جس بےعزتی کا سامنا کرنا پڑا ہوگا اس کا درد میں بھی محسوس کرسکتی ہوں۔ یہ اس بچے، ہماری قومی زبان اور تمام طلبہ کے خلاف ایک سنگین گناہ سے کم نہیں ہے جنہیں زبان سے نفرت کے اس کھیل میں شریک کردیا گیا ہے۔

ایک موقع پر مجھے اپنی دوست کی بیٹی پر فخر محسوس ہوا جس نے مجھے اپنی 9 سالہ بیٹی کی کہانی سنائی۔ اس کا داخلہ پاکستان واپس آنے کے بعد ایک ’انگریزی میڈیم اسکول‘ میں ہوا تھا۔ چونکہ وہ امریکا میں پیدا ہوئی تھی اس لیے وہ امریکی لہجے میں انگریزی زبان روانی سے بولتی تھی۔ اس بچی کی اردو بھی اچھی تھی کیونکہ اس کے والدین گھر میں اس سے مادری زبان میں ہی گفتگو کیا کرتے تھے۔

اسکول میں کلاس ٹیچر بچی کی انگریزی سے متاثر ہوئیں اور اسے مانیٹر بنا دیا۔ والدہ نے اپنی بیٹی سے پوچھا کہ اس کی بطور مانیٹر کیا ذمہ داریاں ہیں؟ جس پر بچی نے معصومانہ انداز میں جواب دیا کہ ’جو بھی بچہ اسکول میں اردو میں بات کرے گا، مجھے ٹیچر سے اس کی شکایت کرنا ہوگی‘۔ یہ سن کر والدہ بےحد حیران ہوئیں اور فوراً اپنے تینوں بچوں کو اس اسکول سے نکال لیا۔

اس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ ’میں کبھی نہیں چاہوں گی کہ میرے بچے ایسے اسکول میں تعلیم حاصل کریں جہاں لسانی تعصبات کو پروان چڑھایا اور بچوں کو اپنی ہی مادری زبان سے نفرت کرنا سکھایا جاتا ہو‘۔

اس پس منظر میں پاکستان تنظیمِ اساتذہ برائے تدریسِ اردو کے زیرِاہتمام اردو تدریس کانفرنس میں شرکت کرنے پر مجھے خوشی محسوس ہوئی۔ شرکا سے مخاطب ہونے والے تمام مقررین نے اردو زبان کی خصوصیات اور ادب کے خزانے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ ایک مقرر نے اس جانب اشارہ کیا کہ عینی آپا کے آگ کے دریا کا ذکر کیے بغیر اردو ادب نامکمل محسوس ہوتا ہے۔

اس پر مجھے اپنی سب سے کم عمر دوست ستارہ کی یاد آئی جو خیرو ڈیرو کی رہائشی ہے اور وہ مجھے اس پوری دنیا میں اپنی بہترین دوست قرار دیتی ہے۔ جب ستارہ نے گاؤں کے اردو میڈیم اسکول میں داخلہ لیا تب اردو اس کے لیے مشکل زبان ثابت ہورہی تھی۔ اسے پڑھنے میں مشکلات درپیش تھیں کیوں کہ اردو اس کے لیے ایک اجنبی زبان تھی۔ وہ صرف سندھی زبان بولنا جانتی تھی۔

اس کے اساتذہ خود بھی سندھی بولتے تھے اور وہ اردو سیکھنے میں ستارہ کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے یہ کہہ کر ہاتھ اٹھا لیے کہ ستارہ میں ہی سیکھنے کی صلاحیت کم ہے۔ پھر ایک دن ستارہ نے بغاوت کی اور اسکول جانے سے ہی انکار کردیا۔ اس کے یوں اچانک پڑھائی جاری نہ رکھنے کے فیصلے نے سب ہی کو ناراض کیا۔

مجھے ستارہ کا اسکول سے راہِ فرار اختیار کرنا سمجھ آگیا۔ ظاہری طور پر اسے پڑھنے میں لطف نہیں آرہا تھا۔ تو میں نے اس کی ’ادی‘ (بہن، جو خیرو ڈیرو میں ترقیاتی پروجیکٹ چلانے والے ٹرسٹ کو سنبھالتی ہیں) سے کہا کہ وہ ستارہ کو اس کی مادری زبان میں تعلیم دلوائیں۔

میری مادری زبان کے خلاف ستارہ کی بغاوت کے باوجود میری اور اس کی دوستی قائم ہے۔ میں نے ہمیشہ ہی اسے کتابوں کے تحائف دیے لیکن وہ کتابیں بُک گروپ کی جانب سے شائع کردہ سندھی زبان کی کتابیں ہوتی ہیں۔

ہم جب بھی ملتے ہیں تو ہمارے برتاؤ سے ہی ہماری دوستی ظاہر ہوتی ہے۔ پھر ایک معجزہ ہوا اور ستارہ نے مجھے پیغام بھیجا کہ ’پلیز مجھے اردو میں بھی کچھ کتابیں دیں‘۔ لیکن معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ چند ماہ بعد مجھے ستارہ کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس میں اس نے مجھے انتہائی اچھی اردو زبان میں سالگرہ کی مبارکباد دی۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے سندھی زبان میں اپنی تعلیم جاری رکھی اور اپنے ہم عمر دیگر بچوں کے مقابلے میں وہ تعلیمی میدان میں بہت آگے ہے۔

یہی وجہ ہے کہ میں اس بات پر پختہ یقین رکھتی ہوں کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں دینی چاہیے اور آہستہ آہستہ انہیں اردو زبان کی جانب لانا چاہیے جوکہ پاکستان میں ابلاغ کی عام زبان ہے۔ اسی لیے یہ ہمارے ملک کی قومی زبان بھی ہے۔ اگر مادری زبان کو فوقیت دینے کے اصول پر عمل کیا جائے تو اردو فاتح بن کر ابھرے گی۔

حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اسکولوں میں داخلہ لینے والے 93 فیصد بچوں کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ وہ اردو کے علاوہ مختلف زبانیں سمجھتے اور بولتے ہیں۔ ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ اگر اس معاملے میں حساسیت سے کام لیا جائے تو ان بچوں کے دلوں میں بھی اردو سے محبت پیدا کی جاسکتی ہے۔

بچے کو ایسی زبان میں تعلیم دینے کے جسے وہ سمجھ سکے بہت فوائد ہیں۔ یہ ایک طرح سے بچے کو جذباتی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یوں وہ اپنی تنقیدی سوچ جاری رکھ سکتے ہیں کیونکہ وہ ایسی زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جسے وہ سمجھ سکتے ہیں اور انہیں اسے یاد کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس طرح وہ اپنے سبق سے لطف اندوز ہوں گے اور اپنی شخصیت کا واضح انداز میں اظہار کرپائیں گے۔

سب سے بڑھ کر، یوں بچے میں زبان سیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دیگر زبانیں بھی آسانی اور جلدی سیکھ سکے گا۔ ظاہر ہے اس کی مادری زبان کے بعد قومی زبان اردو کی باری آئے گی۔ دوسرے الفاظ میں ہر بچہ میری ستارہ کی طرح واقعی ستارہ بن سکتا ہے۔

اس تناظر میں پاکستان تنظیمِ اساتذہ برائے تدریسِ اردو کے طاہر جاوید اور آغا خان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن ڈیویلپمنٹ کے ڈین فرید پنجوانی مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ان کی تحقیق اس سوال کے جواب میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں کہ کب اور کیسے بچوں کے تدریسی عمل کو مادری زبان سے اردو میں مؤثر اور مثبت انداز میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان کو اس معاملے میں بڑا فائدہ یہ حاصل ہے کہ یہاں کی تمام زبانوں کی جڑ ایک ہی ہے یعنی ان کا نحو اور رسم الخط مماثل ہیں (تھوڑا فرق ضرور ہے)۔ تو پھر ایسا کوئی معجزہ دوبارہ کیوں نہیں ہوسکتا جس معجزے نے ستارہ کی زندگی بدل دی؟


یہ مضمون 24 مارچ 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں