لنڈی کوتل: طورخم پر کسٹم ٹرمینل کی تعمیر کیلئے زمین کے حصول پر تنازع طول پکڑگیا

03 اپريل 2023
خوگہ خیل قبائل کے ترجمان نے کہا کہ ہم اضافی زمین کے حصول کے حوالے سے صرف منصفانہ معاہدے کا مطالبہ کرتے ہیں—فوٹو: ابراہیم شنواری
خوگہ خیل قبائل کے ترجمان نے کہا کہ ہم اضافی زمین کے حصول کے حوالے سے صرف منصفانہ معاہدے کا مطالبہ کرتے ہیں—فوٹو: ابراہیم شنواری

طورخم بارڈر پر جدید ترین کسٹم ٹرمینل کی تعمیر کے لیے زمین کے حصول پر تنازع زور پکڑتا جا رہا ہے جبکہ رواں سال کے آخر تک منصوبے کی تکمیل کے لیے تعمیراتی کام جاری ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خوگہ خیل قبیلے کے عمائدین کا الزام ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ساتھ انہوں نے ٹرمینل کی تعمیر کے لیے طورخم بارڈر کے قریب اپنی 300 کنال سے زائد کی اجتماعی اراضی کی فراہمی کے معاہدے پر دستخط کیے تھے لیکن ایف بی آر نے اس کے انفرااسٹرکچر کو نئے سرے سے ڈیزائن کرلیا اور ان کی رضامندی کے بغیر 400 کنال سے زائد اضافی اراضی بھی ہتھیالی۔

ایف بی آر اس معاملے میں پس منظر میں موجود ہے اس لیے قبائلی عمائدین نے نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی) کو نشانے پر لے لیا ہے کیونکہ منصوبے کی تعمیر کا کنٹریکٹ اسے ہی دیا گیا ہے اور تعمیراتی منصوبے پر عمل درآمد کے لیے وہاں این ایل سی ہی موجود ہے۔

خوگہ خیل قبائل کے ترجمان اور جے یو آئی-ایف کے سینیئر رہنما مفتی اعجاز نے زور دیا کہ کسٹم ٹرمینل کے نظرثانی شدہ منصوبے اور اس کے تحت 400 کنال سے زائد اضافی اراضی پر قبضے کے بارے میں انہیں کبھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ’خوگہ خیل قبیلہ اور ضلع خیبر کے رہائشی اس ٹرمینل کی تعمیر کے خلاف نہیں ہیں کیونکہ یہ مقامی لوگوں کو روزگار کے انتہائی ضروری مواقع فراہم کرے گا اور افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت کو فروغ دے گا لیکن ہم اس مقصد کے لیے کسی بھی اضافی زمین کے حصول کے حوالے سے صرف منصفانہ معاہدے کا مطالبہ کرتے ہیں‘۔

خوگہ خیل کے قبائلیوں نے 12 مارچ کو لنڈی کوتل میں ایک احتجاجی ریلی کے دوران متنبہ کیا تھا کہ اگر ایک ہفتے کے اندر ان کی شکایات کا ازالہ نہ کیا گیا تو وہ زبردستی ٹرمینل کی تعمیر روک دیں گے تاہم وہ ڈیڈ لائن کی میعاد ختم ہونے کے بعد اپنے اس انتباہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مطلوبہ طاقت جمع کرنے میں ناکام رہے اور اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا فیصلہ کیا۔

تاہم خوگہ خیل قبیل کے ایک بزرگ اور 9 رکنی مذاکراتی کمیٹی کے رکن نثار احمد نے بتایا کہ یہ مسئلہ طویل عرصے سے حل ہو چکا تھا اور حکومت کے ساتھ نظرثانی شدہ معاہدے پر کسی قسم کی تنقید یا تحفظات غیر ضروری ہیں اور اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذاکراتی ٹیم کے 9 ارکان میں سے 5 نے ایف بی آر کو اپنی اجتماعی زمین کی اضافی 404 کنال کی فراہمی پر رضامندی ظاہر کی تھی لہٰذا معاہدے کو متنازع بنانے اور کسٹم ٹرمینل کی تعمیر کو سبوتاژ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ٹرمینل کے نظرثانی شدہ منصوبے اور اضافی اراضی کے حصول کے بارے میں ایف بی آر کا مؤقف جاننے کے لیے متعلقہ ایف بی آر حکام سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے بار بار پوچھے جانے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا۔

اس حوالے سے این ایل سی سے رابطہ کیا گیا تو طورخم میں این ایل سی کے جنرل منیجر عبدالعزیز خٹک نے بتایا کہ ’خوگہ خیل قبیلے کی ایک انچ زمین بھی قانونی اختیار کے بغیر زیر تعمیر ٹرمینل کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی تاہم این ایل سی کی معلومات کے مطابق نظرثانی شدہ معاہدے پر دستخط کے بعد تقریباً 16 کنال اراضی کا فرق سامنے آیا لیکن اسے بھی مقررہ وقت میں نظر ثانی شدہ نرخوں کے مطابق حل کر دیا جائے گا‘۔

انہوں نے واضح کیا کہ ’کسٹم ٹرمینل کے درمیان سے گزرنے والی مرکزی شاہراہ نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کی ملکیت ہے جبکہ ٹرمینل کے دائرہ اختیار میں آنے والی قدرتی ندی ریاست کی ملکیت ہے اور ٹرمینل کے لیے حاصل کی گئی کچھ اراضی کے کچھ انفرادی مالکان بھی ہیں جن کو معقول معاوضہ دیا گیا ہے‘۔

عبدالعزیز خٹک نے زور دیا کہ ایف بی آر کی مدد سے این ایل سی کی جانب سے رواں سال کے آخر تک ٹرمینل کے مکمل ہونے پر اس کی حتمی پیمائش کی جائے گی اور خوگہ خیل کے عمائدین سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو ٹرمینل کے احاطے کا اصل سائز دیکھانے کے لیے مدعو کیا جائے گا۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ کچھ اضافی زمین حاصل کی گئی ہے کیونکہ خوگہ خیل قبیلے کے عمائدین اور مقامی تاجروں، ٹرانسپورٹرز اور کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس کی درخواست پر اس میں اضافی سہولیات شامل کرنے کے بعد ٹرمینل کے نقشے پر نظر ثانی کی گئی ہے۔

انہوں نے قبائلی افراد کے بار بار اعتراضات اور احتجاج پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’منصوبے کو پرامن طریقے سے مکمل ہونے دیا جائے، اگر تحریری معاہدے سے زیادہ کچھ کیا گیا تو بغیر کسی تاخیر کے اس کا مناسب معاوضہ ادا کیا جائے گا‘۔

اس اہم ٹرمینل کی تعمیر کا تصور 2003 میں پیش کیا گیا تھا لیکن علاقے میں سیکیورٹی کی صورتحال اور لنڈی کوتل کے قبیلے خوگہ خیل کی اس اراضی کے حصول پر تنازع کی وجہ سے تعمیراتی کام 2015 تک تاخیر کا شکار رہا۔

بالآخر 7 برس قبل تعمیرات کا بالآخر آغاز ہوا تو خوگہ خیل قبیلے کی جانب سے مطلوبہ زمین کے حصول کے لیے شرائط و ضوابط کے خلاف مظاہرے کیے گئے جس کی وجہ سے بہت سی رکاوٹوں اور تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔

تبصرے (0) بند ہیں