بھارت: 8 ریاستوں میں فسادات کے بعد سیکڑوں پولیس اہلکار تعینات، متعدد افراد گرفتار

اپ ڈیٹ 02 اپريل 2023
اے این آئی نے رپورٹ کیا کہ فسادات کے دوران بہار شریف میں ایک شخص کی موت ہو گئی — فوٹو: پریس ٹرسٹ آف انڈیا
اے این آئی نے رپورٹ کیا کہ فسادات کے دوران بہار شریف میں ایک شخص کی موت ہو گئی — فوٹو: پریس ٹرسٹ آف انڈیا

مقامی میڈیا کے مطابق 2 روز سے جاری فرقہ وارانہ فسادات کے بعد بھارتی ریاست بہار میں چھاپہ مار کارروائیاں جاری ہیں جب کہ اتوار کے روز ایک درجن سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔

ہندو دیوتا رام کے جنم دن کے سلسلے میں جاری ہندو تہوار رام نومی کے دوران جمعرات اور جمعہ کو مغربی بنگال، مہاراشٹر اور گجرات میں فرقہ وارانہ تصادم کی اطلاعات سامنے آئیں تھیں۔

مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ اس دوران گاڑیوں، مکانات کے ساتھ ساتھ دکانوں کو بھی آگ لگا دی گئی اور متعدد افراد زخمی ہوئے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی خبر کے مطابق حکام نے اتوار کے روز مشرقی بھارت کے کچھ حصوں میں اینٹی رائٹس پولیس تعینات کر دی اور موبائل انٹرنیٹ سروس منقطع کر دی۔

ہندو تہوار کے بعد حالیہ دنوں میں فرقہ وارانہ تشدد کے دوران کم از کم 13 قصبوں اور شہروں میں درجنوں افراد زخمی اور سیکڑوں گرفتار ہوئے، جن علاقوں میں فسادات ہوئے ان میں بہار، مغربی بنگال، مہاراشٹر، اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور کرناٹک کے علاقے شامل ہیں جہاں مشتعل ہجوم نے توڑ پھوڑ کی، گاڑیوں اور دکانوں کو نذر آتش کیا۔

ہفتہ کو اے این آئی نے رپورٹ کیا کہ بہار شریف میں دو سے تین مقامات پر تشدد کے نئے واقعات ہوئے جن میں ایک شخص کی موت ہو گئی۔

اے این آئی نے پولیس سپرنٹنڈنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ اس شخص کی موت بہار شریف میں تشدد کے دوران ہوئی تھی اور اس کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے روانہ کردیا گیا تھا۔

اس کے بعد متعدد گرفتاریاں عمل میں آئیں، پولیس سپرنٹنڈنٹ اشکو مشرا نے کہا کہ آٹھ ایف آئی آر درج کی گئیں اور رات کے وقت مارے گئے چھاپوں میں 50 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

علیحدہ طور پر بھارتی اشاعتی ادارے ’اسکرول ان ’ نے رپورٹ کیا کہ حکام نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کے تحت ساسارام اور بہار شریف میں چار یا اس سے زیادہ افراد کے اجتماع پر پابندی لگا دی ہے۔

اس نے رپورٹ کیا کہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ جنہوں نے آج بہار کے علاقے ساسارام میں ایک تقریب میں شرکت کرنی تھی، انہں نے بھی جھڑپوں کی وجہ سے اپنا دورہ منسوخ کر دیا۔

دوسری جانب ’اسکرول ان‘ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے بہار چیپٹر کے سربراہ سمرت چوہدری نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو ریاست میں امن و امان کی خرابی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

رپورٹ میں سمرت چوہدری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہاں تک کہ بہار شریف جو کہ چیف منسٹر کے آبائی ضلع نالندہ میں آتا ہے، وہ بھی ہنگامہ آرائی کا شکار ہے اور اسی طرح ریاست کے بہت سے دوسرے حصے بھی ہنگاموں کی زد میں ہیں۔

وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے کہا کہ رام نومی کے تہواروں کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی پریشان کن ہےانہوں نے پولیس کو ہدایت دی کہ ذمہ داروں کو سزا دی جائے۔

رپورٹ میں وزیر اعلیٰ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس طرح کے واقعات علاقے میں پہلی بار ہوئے، یہ فطری نہیں ہے، ہم جانتے ہیں کہ کچھ لوگ فساد میں ملوث ہیں اور ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برباد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔

مغربی بنگال میں جھڑپوں کے دوران ہلاکتوں کی اطلاع ملی، مشرقی ریاست مغربی بنگال کے ہاوڑہ شہر میں جمعرات کی رات دو گروپوں کے درمیان اس وقت تصادام ہوا جب رام نومی کا جلوس اقلیتی برادری کے علاقوں سے گزرا، جمعہ تک وقفے وقفے سے جاری رہنے والی جھڑپوں کے دوران متعدد گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی اور دکانوں پر حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔

انڈیا ٹوڈے کی خبر کے مطابق مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے دائیں بازو کی ہندو قوم پرست حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر فرقہ وارانہ تحریک چلانے اور ’اقلیتی برادری‘ کو ’غنڈوں‘ کی مدد سے نشانہ بنانے کا الزام لگایا۔

مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’وہ ملک کے عوام کے دشمن ہیں‘، انہوں نے دعویٰ کیا کہ بندوقوں اور پٹرول بم سے مسلح حملہ آوروں کو بی جے پی نے کرائے پر لیا جنہوں نے سب سے پہلے اقلیتی برادریوں کے لوگوں پر حملہ کیا۔

تاہم بی جے پی کے سینئر رہنما سویندو ادھیکاری نے پولیس پر ’خاموش تماشائی‘ ہونے کا الزام لگایا۔

ہفتہ کے روز پولیس کمشنر ہاوڑہ نے بتایا کہ شہر میں پرتشدد جھڑپوں کے الزام می 38 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، مختلف ریاستوں میں پرتشدد واقعات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں مزید 100 کو گرفتار کیا گیا۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کہ بھارت میں فرقہ وارانہ تصادم ہوا ہو، اس سے قبل بھی اس طرح کے متعدد واقعات سامنے آتے رہے ہیں جن میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی نے حالیہ برسوں میں سخت گیر ہندو مذہبی گروہوں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ اپنے عقیدے کا دفاع کریں جب کہ ان کی پارٹی نے مودی دور حکومت میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافے کی تردید کی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں