پوری اتحادی حکومت نے موجودہ بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، وزیر اعظم

اپ ڈیٹ 03 اپريل 2023
وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ بینچ سے فیصلہ کروانا انصاف کے اصولوں کے منافی ہے—فائل فوٹو ڈان نیوز
وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ بینچ سے فیصلہ کروانا انصاف کے اصولوں کے منافی ہے—فائل فوٹو ڈان نیوز

وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پوری اتحادی حکومت نے موجودہ بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، کاش چیف جسٹس اس بات کا خیال کریں اور فل کورٹ تشکیل دیں تو وہ فیصلہ قوم کو تسلیم کرنے میں ذرا بھی دقت نہیں ہوگی۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ تین رکنی بینچ کی جانب سے اس طرح کے ’پیچیدہ اور متنازع معاملے کا فیصلہ‘ جاری کرنا ’100 فیصد انصاف کے اصولوں کے خلاف‘ ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ میں چند روز قبل اسمبلی میں تقریر کی، اس کے اگلے دن چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کئی لوگ جیلیں کاٹ کر اسمبلی میں تقریریں کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک مؤقف اور سوچ کے لیے جیل کاٹنے کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے، کرمنل کیسز میں انصاف پسند جج کے ہاتھوں کے جیل کاٹنا بہت تحقیر کی بات ہے، عمران نیازی کے پاس صرف ایک بات تھی کہ اپوزیشن کے رہنماؤں کو جیلوں میں بجھوایا جائے۔

وزیراعظم نے کہا کہ عمران نیازی نے جب نیب گٹھ جوڑ سے مجھے جیل بھجوایا تو لاہور ہائیکورٹ کے فُل بینچ نے میری ضمانت دی اس کے بعد عمران نیازی اور اس کے حواریوں کی جرأت نہیں ہوئی کہ وہ سپریم کورٹ جاکر میری ضمانت منسوخی کیلیے پٹیشن دائر کریں۔

انہوں نے کہا کہ عمران نیازی کے ایک دوست وکیل نعیم بخاری صاحب پیش ہوتے تھے اوراس زمانہ کے چیف جسٹس کابینچ تھا میری ضمانت کو ختم کرنے کے لئےپٹیشن دائر کی، سپریم کورٹ نے ریمارکس دئیے تو نعیم بخاری اپنی پٹیشن واپس لی کردم دبا کربھاگ گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری بارجب مجھے جیل بھجوایاگیا تولاہورہائیکورٹ کے فل بینچ نے میری ضمانت دی اوروہ بھی عمران نیازی کے دورمیں ہوئی، ان کو اوران کے حواریوں کوجرات نہیں تھی کہ وہ اسے چیلنج کرتے، میں میرٹ پررہا ہواہوں۔

شہباز شریف نے کہا کہ میرا جرم یہ تھا کہ میں بطور اپوزیشن لیڈر عمران نیازی کی حکومت کی غلط کاریوں اور تباہ کاریوں کے خلاف بھرپور آواز اٹھاتا تھا یہی وجہ تھی عمران نیازی مجھے اپنے راستے کا کانٹا سمجھتا تھا۔

وززیراعظم نے کہا کہ میرا جرم یہ تھا کہ میں اپنی پارٹی کے قائد میاں نواز شریف کے ساتھ مخلص اوراس وقت اسمبلی میں اپوزیشن اتحاد کے ساتھ حکومت کی غلط کاریوں کا ڈٹ کرمقابلہ کرتا رہا، عمران نیازی چاہتے تھے ان کے سارے مخالفین جیلوں میں جائے اور وہ بانسری بجائے چاہے روم جلتا رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کے توسط سے چیف جسٹس سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ میرے بارے میں یا دوسروں کے بارے میں تو آپ نے فرما دیا کہ آج اسمبلیوں میں تقریریں کرتے ہیں، انہوں نے جیلیں کاٹیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کیا ہمارے خلاف جو بے بنیاد کیسز تھے، کیا ہم ضمانت کی حد تک سرخرو ہو کر آئے ہیں یا پھر خدانخواستہ ہم بے عزت ہو کر آئے ہیں، میں چیف جسٹس سے یہ ضرور پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک ایسا جج جس کے خلاف بہت حد تک سخت الزامات لگے ہیں، آپ کو ساتھ بٹھا کر قوم کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے خلاف تو عمران نیازی اور اس کے حواریوں نے بے بنیاد الزامات لگائے، پھر میرٹ پر ضمانتیں لے کر یہ لوگ اس ہاؤس میں آئے ہیں، بطور عوام کے نمائندے ہمارا حق ہے کہ ہم ان کی ترجمانی کریں۔

چیف جسٹس نے ایسے شخص کو ساتھ بٹھایا جس کے خلاف کرپشن کے سخت ترین الزامات لگے ہیں، یہ عدل کا ملک میں سب سے بڑا ادارہ ہے ، آپ دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ مجھے اگر کوئی بات کرنی ہے تو سب سے پہلے میں اپنے گریبان میں جھانکوں گا، یہ ہی قانون سب پر لاگو ہوتاہے، چیف جسٹس اس پنڈورا بکس کا ذکر کردیتے جو عمران خان حکومت نے ایف آئی اے میں درج مقدمے کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کو بجھوایا، اس میں اللہ نے سرخروں، انہوں نے میرے خلاف ڈیلی میل میں جھوٹی خبر چھپوائی، چیف جسٹس کا ذکر کردیتے، ان کو یہ چیزیں یاد نہیں رہیں، ان کو یہ یاد رہا کہ میں جیل گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ڈبل اسٹینڈرز، یہ دہرا معیار نہیں چلے گا، آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ان کی اہلیہ پبلک آفس ہولڈر نہیں ہیں، اگر یہ بات ہے تو مریم نواز بھی تو پبلک آفس ہولڈر نہیں تھیں، اس کو جیل سے گرفتار کیا گیا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ مریم نواز کو دو بار گرفتار کیا گیا، کئی کئی ماہ دیتھ سیل میں رکھا گیا۔ جیل میں کیمرے لگائے گئے، نا وہ پبلک آفس ہولڈر تھیں نہ کوئی ایک بھی الزام ان پر ثابت ہوا۔ اور دوسری طرف پردے کے پیچھے چھُپے ہوئے ہر سازش کرنے والی کو کچھ نا کہا جائے کیونکہ وہ آسمان سے اتری ہے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ یہ دہرا معیار پاکستان کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دےگا، آج بھی وقت ہے ورنہ ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور آنے والی نسلیں تاریخ میں ہمیں کسی اور نام سے یاد کریں گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں عدالتی بائیکاٹ نہیں بلکہ کارروائی پر عدم اعتماد کے اظہارکافیصلہ ہواتھا۔

ان کا کہان تھا کہ وزیرقانون جس میٹنگ کا حوالہ دے رہے ہیں وہ تمام اتحادی جماعتوں کے قائدین، زعما اورماہرین قانون کی میٹنگ تھی، مسلم لیگ (ن) کے صدرکی حیثیت سے اس اجلاس کی صدارت میں نے کی تھی۔

وزیراعظم نے کہا کہ اجلاس میں فیصلہ ہواتھا کہ موجودہ بنچ پرعدم اعتماد کااظہار کیاجائے گا، بائیکاٹ کالفظ کہیں استعمال نہیں ہوا۔

حساس قومی وآئینی معاملہ پر عجلت، ججز صاحبان کی آرا کوپس پشت ڈال کرکیا جانیوالا فیصلہ متنازع ہوگا،اعظم نذیر تارڑ

قبل ازیں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ ہی وہ ادارہ ہے جہاں ایک آمر 3 ماہ مانگنے گیا، اسے 3 سال بلکہ 9 سال دے دیے گئے۔

فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا جہاں وزیر قانون پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمے کے حوالے سے اظہار خیال کر رہے تھے جب کہ وزیراعظم شہباز شریف بھی ایوان زیریں میں موجود تھے۔

وفاقی وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ نے کہا کہ حساس اوراہم قومی وآئینی معاملہ پر عجلت اورادارے میں بیٹھے ہوئے ججز صاحبان کی آراء کوپس پشت ڈال کرکیا جانیوالا فیصلہ متنازعہ ہوگا، آئین الیکشن کمیشن کوشفاف انتخابات کے طریقہ کار کو طے کرنے کااختیاردیتا ہے، شیڈول کو تبدیل کرنا الیکشن کمیشن کا اختیارہے، الیکشن کمیشن نے سٹیک ہولڈرکی مشاورت سے 8 اکتوبرکو انتخابات کافیصلہ کیاہے۔

اعظم نذیرتارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ایک اہم آئینی معاملہ چل رہاہے جس پرپوری قوم کی نظریں ہے، دو اسمبلیاں عمران خان نیازی کی ذاتی انااورپسند کی بھینٹ چڑھیں،عمران نیازی نے دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کاحکم دیا اوروزرائے اعلیٰ نے اپنا ذہن استعمال کئے بغیر اسمبلیاں تحلیل کردیں اورپھر کوشش کی کہ جلد ازجلد الیکشن کرایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملہ پر پہلے مرحلہ میں عدالت عظمیٰ نے 9 رکنی بینچ تشکیل دیا ، پہلے اوردوسرے روز ججز صاحبان نے اپنے عبوری فیصلے جاری کئے، دو ججز جسٹس اعجازالاحسن اورمظاہرنقوی پر اعتراض اٹھایا گیا کہ ایک تووہ اپنامائنڈظاہرکرچکے تھے اور دوسری وجوہات بھی تھیں، پی پی پی، مسلم لیگ ن، جے یوآئی کی طرف سے بھی درخواستیں دائر کی گئیں، بینچ کی کارروائی شروع ہوئی توبتایاگیاکہ دوججزصاحبان نے رضاکارانہ طورپر اپنے آپ کوبینچ سے علیحدہ کرلیاہے۔

یہ بات میں نہیں کہہ رہا، یہ بات ٹی وی چینلز اوراخبارات میں بھی آئی، اسی روز چیف جسٹس نے جب دوبارہ بینچ تشکیل دیا تو وہ سات کی بجائے 5 ججز صاحبان پر مشتمل تھا اورتوجیہ یہ پیش کی کہ دو معزز ججز صاحا ن جسٹس یحیٰ آفریدی اورجسٹس اطہرمن اللہ نے وہ پٹیشن خودناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے درخواست کومستردکردیاہے، پانچ ججز پرمشتمل بینچ نے جب دوبارہ سماعت شروع کی تو تین ججز صاحبان نے کہاکہ پنجاب اسمبلی کیلئے صدرمملکت اورکے پی اسمبلی کیلئے گورنرالیکشن کی تاریخوں کااعلان کرے اور الیکشن کمیشن سے مشاورت کرے۔

انہوں نے کہا کہ اسی روز دوججز صاحبان جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ وہ اپنے دوبرادرججز جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس اطہرمن اللہ کی رائے سے متفق ہیں اورہماری رائے میں بھی یہ درخواستیں مستردہیں کیونکہ یہ سیاسی کیس ہے اوراسی کیس کی بابت دونوں ہائیکورٹ میں کیسز زیر التوا ہیں، انہوں نے بھی وہ درخواستیں خارج کردیں، 30 منٹ کے اندرمیں نے اوراٹارنی جنرل نے موقف اٹھایا کہ یہ کیس 3 کے مقابلہ میں 4 اکثریتی ججز کی رائے سے مستردہوا.

ان کا کہنا تھا کہ اس پرتبصرہ نگاروں نے تبصرے کئے، جب تفصیلی فیصلے آئے توججز صاحبان نے تفصیل سے واضح کیا کہ سوموٹو کیس نمبر 1، 2023 تین کی بجائے 4 ججز صاحبان کی اکثریت سے مسترد ہوا۔

وزیرقانون نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ملک میں جاری سیکورٹی اورمعاشی صورتحال کوسامنے رکھتے ہوئے اورتمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد آئین کے آرٹیکلز 218 کی شق 3، آرٹیکل 224 اورسپریم کورٹ کے 2012کے ورکرزپارٹی کے لینڈمارک فیصلے کے مطابق 8اکتوبرکوالیکشن کرانے کافیصلہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ میں لے جایا گیا لیکن حیرانگی کی بات ہے کہ بجائے 9 رکنی بینچ، لارجر بینچ یا فل کورٹ میں لیجانے کی بجائے چیف جسٹس نے اپنی صوابدید پر 5 رکنی بینچ تشکیل دیا، اس بینچ میں بھی معززرکن جسٹس جمال خان مندوخیل نے اٹارنی جنرل کی ایک دلیل پر وضاحت سے کہاکہ گزشتہ سماعت میں یہ معاملہ3 کی بجائے 4 ججز صاحبان کی اکثریت سے خارج کردیا گیاہے مگرحیران کن طور پراس سماعت کوجاری کیا گیا یہ عدالتی طریقہ کار اور نظیروں کے منافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی اثنا میں سینئرموسٹ جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے 15 مارچ کا محفوظ فیصلہ سنا دیا اورقراردیا کہ جب تک فل کورٹ رولز نہیں بناتی اس وقت تک ازخود نوٹس کے زیرالتوا مقدمات پیش نہ کئے جائیں۔

وزیرقانون نے کہاکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جب آخری فل کورٹ میٹنگ کی تھی تواس میں خاص طورپرازخود نوٹس کا معاملہ اٹھایاگیا، فل کورٹ میں یہ بات طے ہوئی تھی کہ آرٹیکل 184 تین کی جیوریسڈیکشن کو طے کرنے کیلئے فل کورٹ رولز طے کرے مگر ساڑھے چار برسوں کے بعد بھی فل کورٹ نہیں بنایاگیا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود موجودہ مقدمہ کی کازلسٹ جاری ہوئی، جب کیس عدالت میں آیا توجسٹس امین الدین نے کہاکہ اس فیصلہ کی وجہ سے وہ ضروری سمجھتے ہیں کہ موجودہ کارروائی روکی جائے اوروہ الگ ہوگئے، اسی روز 4 رکنی بینچ بنایا گیا، یہ ایک ایسا موقع ہے کہ سماعت کو غیرجانبدار، منصفانہ اور انصاف نظرآنیوالے اصول کویقینی بنانے کیلئے ایک ایسا بینچ تشکیل دیا جاتا جس پرکوئی انگلی نہیں اٹھاسکتا اوروہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ ماسوائے ان دوججز کے فل کورٹ بنایا جاتالیکن حیران کن طورپر تین رکنی بینچ نے کارروائی شروع کی۔

ان کا کہنا تھا کہ آج عدالت میں بھی یہ بات ہوئی کہ حکمران سیاسی اتحاد کے سربراہان کی تفصیلی مشاورت ہوئی اوراس مشاورت کے بعد اس بات کااظہارکیاگیا کہ ملک کی اعلی ترین عدالت میں معاملات کس طرح سے چل رہے ہیں، نصف سپریم کورٹ اس رائے کا اظہارکرچکی ہے کہ ازخود نوٹس کے کیسز میں پیرامیٹرز طے ہونے چاہئیں۔

وزیر قانون نے کہا کہ حکومتی اتحاد کی جانب سے تین رکنی بینچ پرعدم اعتماد کااظہارکیاگیا اورمودبانہ اپیل کی گئی کہ 4، 3 کے فیصلے کے باوجود اگر سماعت جاری رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے پہلے فل کورٹ میٹنگ کریں اور پیرامیٹرز طے کریں اور ایسا بینچ تشکیل دیا جائے جو سب کو قابل قبول ہو لہذا سماعت کوڈراپ کیا جائے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آج صبح جب دوبارہ سماعت شروع ہوئی اورسیاسی جماعتوں کے وکلاء پیش ہوئے توناراضگی کااظہارہوا کہ آپ نے توبائیکاٹ کیاہے اوراعلامئے جاری کئے توپھرکیوں آئے ہیں تووکلاء نے کہاکہ ہمیں بینچز پراعتراض ہیں، ہمارے تحفظات کے ہوتے ہوئے سماعت سے قبل آپ ہماری باتیں سنیں، چھ روز سے سیاسی جماعتوں کوفریق نہیں بنایا جارہا، ججز صاحبان نے دوبارہ کہاکہ آپ تحریری طور پر لے آئیں کہ آپ نے بائیکاٹ نہیں کیا، آج منصورعلی خان نے دوگھنٹے تک اپنی معروضات پیش کیں کہ عدالت کے وقار کیلئے ایساراستہ اختیارکیا جائے جوپوری قوم کو قابل ہو۔

وزیرقانون نے کہا کہ ہمیں تاریخ کے جھروکے میں بھی دیکھنا چاہئیے کہ ادارے اپنے کنڈکٹ اورفیصلوں سے عزت بناتے ہیں، اٹارنی جنرل نے دست بستہ عرض کیا کہ ایک اورحل بھی ہے کہ چھ معزز ججز صاحبان ایسے ہیں جو ان بینچوں میں شامل نہیں تھے، یہ معاملہ ان ججز صاحبان کے پاس بھیجا جائے مگراس پرتوجہ نہیں دی گئی، اب خبر آئی ہے کہ عدالت عظمی کے بینچ نے سماعت مکمل کرلی ہے اورفیصلہ محفوظ کرلیا گیا ہے اورشاید کل سنایا جائیگا۔

انہوں نے کہا کہ اتنے حساس اوراہم قومی اورآئینی معاملہ کو عجلت اورادارے میں بیٹھے ہوئے ججز صاحبان کی آراء کوپس پشت ڈال کرفیصلہ کیا جائیگا تو متنازعہ فیصلہ ہوگا، آج بھی کہاگیا کہ سیاسی جماعتیں بیٹھ کرفیصلہ کریں، میں عدالت عظمیٰ سے دست بدستہ عرض کررہاہوں کہ پہلے اپنے گھرمیں اختلافات کو دورکریں، آپ سے فل کورٹ میٹنگ مانگی جارہی ہے وہ دیں۔

وزیرقانون نے کہا کہ اس موقر ایوان اورسینیٹ نے سپریم کورٹ پریکٹسسز اینڈ پروسیجر بل منظور کیا ہے ، پچھلے 4 دنوں سے صدرمملکت کے پاس ہے، صدرمملکت سیاسی پارٹی کاورکر نہ بنیں ان کامنصب ان کویہ اجازت نہیں دیتا۔

وزیرقانون نے کہاکہ ایک صاحب دوجھنڈوں کے ساتھ بیٹھ کربھاشن دیتے ہیں کہ الیکشن 90 روز میں ہونا ہے، آئین شفاف الیکشن کے طریقہ کارکی بات بھی کرتا ہے، الیکشن ایک روز میں ہوں یہ بھی آئین میں طے ہے،الیکشن کے تنازعات کی ہم نے بھاری قیمت دی ہے، آئین سے روگردانی ہم نے دیکھی ہے، جب اسمبلی کوبرخاست کیا گیا، جب وزیراعظم سے حلف نہیں لیاگیا توکیا وہ آئین سے روگردانی نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب قومی اسمبلی اورپنجاب اسمبلی میں 25،25 روز تحریک عدم اعتماد فکس نہیں کی جاتی تو آئین سے روگردانی نہیں تھی، گورنرکی سمری پرجب صدر25 روز بیٹھے رہے تو کیاآئین سے روگردانی نہیں تھی، ملک کی آئینی تاریخ کوداغدارکیا گیا، حکومت سے چمٹے رہنے کیلئے آئین کو پامال کیا، آئین کے خالقوں کوعلم نہیں تھا کہ بڑے عہدوں پراتنے چھوٹے لوگ آئیں گے جو اپنی ذاتی انا اوراپنی نوکری کو بچانے کیلئے آئین کوپامال کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اسی عدل کے ایوان میں یہ بھی دیکھا جب آئین کے 63 اے کی تشریح کرتے ہوئے پانچ رکنی بینچ کے دو ججز صاحبان نے کہاکہ صدارتی ریفرنس میں کوئی ایسی بات نہیں جس کا جواب دیا جائے ، 63 اے مکمل ہے اس میں تمام امورکااحاطہ کرلیاگیاہے ، آئین کے 63 اے کی تشریح کرتے ہوئے اس میں آرٹیکل 17 کو شامل کرکے آئین کودوبارہ تحریر کیاگیاہے۔

وزیر قانون نے کہا کہ اس کے خلاف نظرثانی کی اپیلیں 10 ماہ سے انتظارمیں اور سردخانوں میں پڑی ہے کہ کب لارجر بینچ اس کافیصلہ کریں گے کہ یہ آئین کی روح کے مطابق ہے یا یہ بھی کسی لاڈلے کے فائدے کیلئے تھی۔

انہوں نے کہاکہ اگر 63 اے میں آرٹیکل 17 کو ایڈ کیا جاسکتا ہے تو224 کی شقوں کو بھی شامل کیا جاسکتاہے، اس وقت جوملکی اورعالمی صورتحال ہے اورجس طرح کے سیکورٹی چیلنجز موجود ہیں، اگر ملک کوآگے لیکرجانا ہے اورآئین کی پاسداری کرنا ہے تو فیصلے وقت کے مطابق ضرورکریں مگر ترازوبرابر کریں، آئین الیکشن کمیشن کو اختیاردیتا ہے کہ الیکشن کس طرح کرنا ہے، شیڈول کو تبدیل کرنا الیکشن کمیشن کا اختیارہے، الیکشن کمیشن نے سٹیک ہولڈرکی مشاورت سے 8 اکتوبرکافیصلہ کیاہے۔

انہوں نے کہا کہ فیصلے کرتے وقت گڈ پریکٹسز کے تحت آئین کومقدم رکھنا چاہئیے، ہمارا موقف ہے کہ اہم آئینی معاملہ پر پہلے مرحلہ میں کارروائی 3 کے مقابلہ میں 4 سے مستردہوئی ہے، اب اگر تین رکنی بینچ کوئی فیصلہ کرتا ہے تو تین باتیں اورسوالات ہیں ، پہلا یہ کہ تین رکنی بینچ کا فیصلہ قوم کو قابل قبول، دوسرا یہ کہ عوامی پذیرائی ہوگا، تیسری بات کہ یہ فیصلہ قابل عمل ہوگا یا نہیں۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ فیصلہ سنانے کے 30 منٹ کے اندر اندر میں نے اُس وقت کے اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی صاحب نے یہ مؤقف اپنایا کہ یہ کیس 3 کے مقابلے میں 4اکثریتی ججز کی رائے سے خارج ہو گیا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 4 کے مقابلے میں 3 کے اکثریتی فیصلہ سامنے آنے کے بعد جب کیس کی سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تو ہم نے استدعا کی کہ فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

وزیر قانون کی تقریر کے بعد وفاقی وزیر مواصلات مولانا اسعد محمود نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پی ٹی آئی کی حکومت ہوئے ہم نے بلدیاتی انتخابات میں فتح حاصل کی، تمہیں قوم نے ازمایا، تمہیں زبردستی ازموایا گیا، تم نے ملک کی معیشت تباہ کردی۔

ان کا کہنا تھا گزشتہ دنوں کئی لوگوں سے سیکیورٹی واپس لی گئی، جن پر حملے ہوئے، جن کو خطرات تھے، ان سے سیکیورٹی واپس لی گئی، میں مطالبہ کرتا ہوں کہ پیمانہ ایک رکھیں، یا تو سب کو سیکیورٹی فراہم کریں یا پھر عمران خان سے بھی سیکیورٹی واپس لی جائے،تا کہ ان لوگوں کو بھی اندازہ ہو اس وقت قوم کس دہشت گردی سے لڑ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اس وقت جو کیس سنا جا رہا ہے، اس میں فریق بننے کی درخواست کرتے ہیں تو ان کو سنا نہیں جاتا اور مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ آپ مل بیٹھ کر کوئی فیصلہ کرلیں نہیں تو ہم فیصلہ کریں گے۔

ان کا کہنا تھا اگر عدالت کے پاس کوئی کیس آتا ہے تو آپ اس کو آئین و قانون کے مطابق دیکھیں گے یا کہیں گے کہ مل بیٹھ کر فیصلہ کرلیں، اگر مل بیٹھ کر 2024 یا 2030 یا 2050 کی کوئی تاریخ طے کرلیتے ہیں تو پھر آئین کہاں کھڑا ہوگا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ بات آئین کی ہے، یہ کیا ہم صبح و شام سن رہے ہیں کہ میں یہ کردوں گا، وہ کردوں گا، حکومت کی اتحادی جماعتوں نے عدم اعتماد کا اظہار کیا، صبح سے پوچھا جا رہا ہے کہ آپ تو بائیکاٹ نہیں کر رہے تھے، ، آپ تو بائیکاٹ نہیں کر رہے تھے، کہا گیا کہ آپ ہمیں لکھ کر دیں کہ بائیکاٹ نہیں کریں گے۔

مولانا اسعد محمود نے کہا کہ عدالت بھی ہمیں لکھ کر دے کہ فل کورٹ بینچ ہی اس کیس کو سنے گا، انصاف پر مبنی فیصلہ کرے گا، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ نے کہا کہ عمران خان کے کہنے پر اسمبلی توڑی، آئین پر عمران خان سے وفاداری کو ترجیح دی گئی، قوم فیصلہ کرے، پارلیمنٹ فیصلہ کرے کہ اس ملک کے فیصلے آئین کرے گا یا عمران خان کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ میں اس فورم سے چیف جسٹس اور دیگر ججز کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے اختیار کو استعمال کریں، عدالت سیاسی فیصلہ نہیں کرسکتی، عدالت پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے اختیار کو استعمال نہیں کرسکتی، ہمیں پانی کا ایک منصوبہ لگانے کے لیے 6 ماہ لگتے ہیں اور عدالت ایک منٹ میں وہ منصوبہ اڑا دیتی ہے، عدالت اپنے اختیار کو استعمال کرے، انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر ایوان کی کمیٹی بنائیں اور افتخار چوہدری اور ثاقب اور دیگر سابقہ ججز کو ایوان میں بلائیں اور پوچھیں کہ فلاں فیصلہ کس بنیاد پر کیا۔

مولانا اسعد محمود کی تقریر کے بعد اسپیکر راجا پرویز اشرف نے قومی اسمبلی کا اجلاس کل بروز منگل دوپہر 2 بجے تک ملتوی کردیا۔

’ہماری حکومت نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط من و عن تسلیم کر لی ہیں‘

قبل ازیں مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ معاشی بہتری کیلئے سیاسی استحکام لازم ہے، اللہ پر پورا یقین ہے کہ وہ پاکستان کو موجودہ مشکل حالات سے ضرور نکالے گا، چین نے پاکستان کو موجودہ معاشی صورتحال سے نکلنے کیلئے 2 ارب ڈالر نقد دیئے ہیں، ریاست کے لیے اگر اپنی سیاست قربان کرنا پڑے تو اس سے گریز نہیں کریں گے، اسرائیل کے ساتھ تجارت کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں، فلسطینیوں کو ان کا آزاد وطن مل جانے تک پاکستان اور اسرئیل کے درمیان تعلقات کا کوئی امکان نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ کافی عرصہ کے بعد پارلیمانی پارٹی سے مخاطب ہو رہا ہوں، اس کے لیے معذرت خواہ ہوں، اس عرصہ میں ملک کو درپیش مسائل وچیلنجز اور ان سے نمٹنے کیلئے جو اقدامات ہم نے کئے وہ اپنی جگہ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک کی اتنی گھمبیر صورتحال کا اندازہ نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ سے انحراف خارجہ پالیسی کی تباہی سمیت عمران نیازی نے جو اقدامات اٹھائے، سعودی عرب اور چین سمیت دیگر برادر ممالک کے ساتھ تعلقات کو ختم کر دیا، ملک کے اندر معاشی مہنگائی کا طوفان تھا جو ابھی تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا، ان تمام معاملات سے نمٹنے کیلئے میاں نواز شریف کی سرپرستی اور اتحادی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ مل کر جو کاوشیں ہوئی ہیں یا کی جا رہی ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں، ہماری حکومت نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط من و عن تسلیم کر لی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے تاریخ کا بدترین سیلاب پاکستان میں آیا جس میں وفاقی حکومت نے 100 ارب روپے خر چ کئے، صوبوں نے اس کے علاوہ خرچ کئے۔

’سوشل میڈیا پر اسرائیل کے ساتھ تجارت کی باتیں کی گئیں جس میں کوئی صداقت نہیں،

وزیر اعظم نے کہا کہ 2018 میں نواز شریف کے دور میں پاکستان ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن تھا، اس وقت چینی 52 روپے کلو تھی، دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتیں بھی کم تر سطح پر تھیں، روپے کی قدر انتہائی مستحکم تھی، 70 سال کے قرضوں سے زائد قرضے گذشتہ چار سال میں لئے گئے ۔انہوں نے کہاکہ پرائیویٹ اجلاسوں میں چین کے خلاف الزامات لگائے گئے، عمران خان نیازی اور اس کے حواریوں نے یہ کہا کہ سی پیک کے منصوبوں میں 45 فیصد کرپشن ہوئی اور اس کا ذمہ دار مجھے قرار دیا، اس کے آڈٹ کا تقاضا کیا گیا جس کی وجہ سے ہر چیز کھٹائی میں پڑ گئی، اس منصوبہ کو بریکیں لگ گئیں۔

انہوں نے کہاکہ سوشل میڈیا پر اسرائیل کے ساتھ تجارت کی باتیں کی گئیں جس میں دور دور تک کوئی صداقت نہیں، یہ بے بنیاد ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کسی پاکستانی نژاد یہودی کے اسرائیل کے ساتھ کاروبار سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے،پاکستان کا روزاول سے یہ موقف ہے کہ جب تک فلسطینیوں کو ان کا آزاد وطن نہیں مل جاتا ،ہم اس مطالبے سے دستبردار نہیں ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ اس قسم کی من گھڑت کہانیاں کس نے گھڑی ہیں،یہ وہی ہیں جنہوں نے پاکستانی نژاد میئر آف لندن کی مخالفت کی اور اپنی یہودی نژاد سابق اہلیہ کے سگے بھائی کی کھلی حمایت کی، ہمیں اس سے غرض نہیں کون یہودی ہے،کون عیسائی اور کون کس مذہب سے ہے لیکن یہ وہ حالات ہیں جن سے پاکستان کو ان حالات کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کس طرح پنجاب اور کے پی کے وزراء سے آئی ایم ایف کے معاہدہ پر دستخط نہ کرنے کا کہا کہ معاہدہ نہ ہو اور پاکستان ڈیفالٹ کرجائے۔

انہوں نے کہا کہ اب عدلیہ پر بھرپور وار کرنے والا عمران نیازی ہے،آپ سب نے عدلیہ بحالی تحریک اور جمہوریت کے استحکام میں بھرپور قربانیاں دی ہیں،نواز شریف کے ساتھ سفر میں جو دکھ اور تکلیفیں کاٹی ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ملک کو بچانے کے لئے ہم نے سیاسی کمائی قربان کی تو کوئی دکھ نہیں،اگر ریاست بچ گئی تو خیر ہی خیر ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ملک کو نقصان پہنچتا ہے تو کوئی فائدہ نہیں، پاکستان کی عظمت اور ترقی کے لئے جو نقصان بھی ہو کوئی پشیمانی نہیں ہوگی، وہ دن ضرور آئے گا جب یہ ملک ترقی و خوشحالی دیکھے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ حالات جلد بدلیں گے، رب سے امید واثق ہے کہ وقت بدلے گا ہماری نیت صاف ہے،مشکلات ہیں،یہ بھی درست ہے کہ ہمیں اس صورتحال میں نیند نہیں آتی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اس صورتحال سے گھبرانے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ہم نے وقت پر گندم منگوائی،آج بھی وافر گندم ذخیرہ میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ گندم پر اربوں ڈالر لگے۔مفت آٹے کی تقسیم کا تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ہم نے شروع کیا جس کا 10 کروڑ عوام کو فائدہ ہوگا۔یہ پروگرام جاری ہے،اس کا خود جائزہ لے رہا ہوں۔پھر دورے شروع کروں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک اور قومیں اس طرح نہیں بنتیں،ترقی اور خوشحالی کے سیاسی استحکام ضروری ہے،ملک کے خلاف سازشیں کرنے والا سب کے سامنے ہے، ان کے دور میں ہم دربدر ضمانتوں کے لئے پھرتے تھے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، اب ان کو نوٹس آتا ہے تو عدالتوں میں بھاگتے ہیں، ہائی کورٹ میں عمران خان کی اہلیہ کے لئے موقف اختیار کیا ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ تو یہ بتایا جائے کہ مریم نواز کے پاس کون سا سرکاری عہدہ تھا جو انہیں جیل میں ڈالا گیا، جب آپ کے بچوں کو جیلوں میں ڈالا گیا تو کیا ان کے پاس کوئی سرکاری عہدے تھے، یہ ایک موازنہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ خانہ کعبہ کے ماڈل کی گھڑی کو بیچنے سے بڑا کوئی دھبہ اور اس سے بڑی شرمناک بات پاکستان کے لئے کوئی نہیں ہوسکتی تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس کی جعلی رسید پیش کی اور اس پر جھوٹ بولا، پاکستان تاریخ کے حقیقی نازک موڑ پر کھڑا ہے لیکن امید واثق ہے کہ اللہ کی مدد سے اس صورتحال سے نکلیں گے، ہمیں آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہمیں کھڑے ہونا ہو گا، آپ کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، معیشت ضرور اپنے قدموں پر کھڑی ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ چین نے پاکستان کو ان دو ہفتوں میں 2 ارب ڈالر کیش دی ہے کیونکہ اسے ادراک ہو چکا تھا کہ پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، چین نے یہ سرکاری قرض دیا ہے، چین نے 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، 450 ارب روپے ان چینی کمپنیوں کو واپس کرنے ہیں، کوئی اور ملک ہوتا تو وہ اس تاخیر پر ہمیں عالمی عدالت میں لے جا چکا ہوتا، یہ پیسہ کافی عرصہ سے چلا آ رہا ہے، چین کو 150 ارب دلوائے ہیں، چین کے خلاف قابل اعتراض گفتگو احسان فراموشی ہے جس نے پاکستان کو اس مقام تک پہنچایا۔

انہوں نے اراکین کو ہدایت کی کہ انہیں اسلام آباد میں اپنی موجودگی یقینی بنانی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں