سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے منظور

اپ ڈیٹ 10 اپريل 2023
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ—فوٹو: ڈان نیوز
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ—فوٹو: ڈان نیوز

پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی طرف سے پیش کیا گیا سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل متفہ رائے سے منظور کرلیا گیا۔

پارلیمان کا مشترکہ اجلاس اسپیکر راجا پرویز الہٰی کی زیر صدارت ہوا جہاں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل پیش کیا جو کہ متفقہ رائے سے منظور کرلیا گیا گیا۔

وزیر قانو اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ایوانوں نے اس بل پر بحث کیا تھا، سیڑھیوں پر بیٹھے احتجاج کرنے والے دوستوں کو چاہیے کہ کم علمی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اس بل کو غور سے پڑھیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ صدر مملکت عارف علوی نے اپنی چٹھی میں جو جو سوالات اٹھائے ہیں اس میں سب سے پہلے میرا اعتراض ہے کہ صدر مملکت نے جو لفظ ’ قانون سازی کی رنگین مشق’ استعمال کیا ہے وہ نامناسب ہے اور صدر مملکت نے پارلیمان کے خودمختار حیثیت، آزادی، قانون بنانے کے اختیارات پر منفی تبصرہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کو ریاست کے سربراہ کے طور پر کام کرنا چاہیے نا کہ سیاسی جماعت کے رکن کے طور پر کیونکہ پارلیمان کا رکن ہونے کی حیثیت سے یہ بات میرے لیے تکلیف دہ ہے کہ صدر مملکت اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے تعصب کی عینک پہن لیتے ہیں اور اپنی جماعت کی سروس شروع کردیتے ہیں۔

وزیر قانون نے کہا کہ بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشن، سول سوسائٹی کے جائز مطالبات کو نظر میں رکھتے ہوئے اور ماضی قریب میں سپریم کورٹ کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں کے پیش نظر پاکستان کے عوام کے نمائندہ ایوان نے سپریم کورٹ پروسیجر اور رولز میں شفافیت لانے اور امپیریل کورٹ کا تاثر ختم کرنے کے لیے، ون مین شو کا اثر ختم کرنے کے لیے یہ قانون بنایا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ صدر مملکت نے یہ بھی کہا کہ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی جارہی ہے لیکن یہ تمام اختیارات سپریم کورٹ کے معزز ججوں کو ہی دیے گئے ہیں اور جو کام اکیلے چیف جسٹس کرتے تھے اب وہ کام دو سینیئر ترین ججوں کی مشاورت سے کریں گے جس سے ادارے میں اجتماعی سوچ کا کلچر پیدا ہوگا اور اسی طرح ادارہ تنقید سے محفوظ رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ایوانوں نے بڑی سوچ بچار کے بعد یہ قانون پاس کیا جس کو بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشن نے پڑے پیمانے پر سراہتے ہوئے کہا کہ یہ بل بہت پہلے آنا چاہیے تھا۔

وزیر قانون نے سینیٹر مشتاق احمد کی طرف سے پیش کی گئی ترامیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ پھر بھی سپریم کورٹ نے ہی کرنا ہے کسی اور کو نہیں مگر کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جن کے ہاتھوں یہ چیزیں خراب ہوئی ہیں ان کے ہاتھوں درست ہوں تو اچھا ہے۔ بعدازاں پارلیمان نے سینیٹر مشتاق احمد کی ترمیم کو مسترد کردیا۔

خیال رہے کہ سینیٹر مشتاق احمد نے بل میں ترامیم پیش کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان میں عدلیہ کی مداخلت روکنے کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو بھی روکنا ہوگا۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ اس بل کے مقاصد یہ ہیں کہ پارلیمان کے دائرے اختیار میں عدلیہ کی مداخلت کو روکا جائے، میں پارلیمان کے ساتھ کھڑا ہوں، نہ صرف عدلیہ بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو بھی روکا جائے اور پارلیمان کو سپریم اور خودمختار ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ بھی پارلیمان کے دائرے اختیار میں مداخلت کر رہی ہے لیکن گزشتہ 75 برس سے اسٹیبلشمنٹ بھی اس میں مداخلت کرتی رہی ہے۔

سینیٹر نے کہا کہ ایک مخصوص شخص کے لیے پارلیمان میں قانون سازی کی جاتی ہے پہلے بھی آرمی چیف کو توسیع دینے کے لیے قانون سازی کی گئی، اسٹیٹ بینک کے حوالے سے ایف اے ٹی ایف اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے لیے ترامیم کی گئیں جو کہ غلط تھا اس لیے موجودہ بل کی شق ٹو سب کلاس ٹو میں ترمیم کرنے کی تجویز کرتا ہوں۔

اس موقع پر فارق ایچ نائک نے کہا کہ پارلیمان نے اس بل کو منظور کیا اور بعد میں سینیٹ میں بھی منظور کرلیا گیا مگر صدر مملکت نے اس کو واپس بھجوا دیا جس پر یہ مشترکہ اجلاس بلایا گیا ہے۔

فارق ایچ نائک نے کہا کہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کو ازخود نوٹس کے اختیارات دیے گئے جس کے تحت انسانی حقوق اور دیگر معاملات پر ازخود نوٹس لیتے تھے مگر اس میں بار ایسوسی ایشن اور بار کونسلز سمیت سپریم کورٹ کے ججز کی طرف سے بھی اظہار تشویش کیا جا رہا تھا کیونکہ متاثرہ پارٹی کو اپیل کا حق نہیں تھا۔

صوبائی و قومی انتخابات بیک وقت کرانے کی قراردادیں منظور

ادھر وفاقی وزیر مرتضیٰ جاوید عباسی اور کامران مرتضیٰ نے ملک بھر میں صوبائی اور قومی انتخابات کا انعقاد بیک وقت کرانے کی قرارداد پیش کی جو کہ متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔

اس موقع پر چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ کیا یہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوگی کہ اگر کل بڑے صوبے (پنجاب) میں انتخابات کرائے جائیں اور وہ جیتنے کے بعد وہاں سیاسی انجنیئرنگ کرے یا تو پھر قانون میں ترامیم کرکے تمام صوبوں کو برابر کی نشستیں دی جائیں۔

نور عالم خان نے کہا کہ اگر پنجاب میں الیکشن پہلے اور دیگر صوبوں میں بعد میں ہوگا تو یہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمان پر ہر وقت حملہ ہوتا ہے سپریم کورٹ پر کبھی کسی نے حملہ نہیں کیا۔

نور عالم خان نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ میں سو موٹو لینے کا اختیار تین ججز کو دیا گیا ہے تو اس میں کوئی بری بات نہیں اگر اس پر کوئی تنقید کرتا ہے تو وہ جمہوریت پسند نہیں بلکہ ڈکٹیٹرشپ کی پیداوار ہیں۔

بعدازاں قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی 14 مئی تک ملتوی کردی گئی۔

خیال رہے کہ اس سے قبل صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونے والا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اختیارات سے باہر قرار دیتے ہوئے نظرثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیا تھا جس کے پیش نظر آج قومی اسمبلی کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کیلئے فنڈزکی منظوری کا بل قومی اسمبلی میں پیش

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار—فوٹو: ڈان نیوز
وزیر خزانہ اسحٰق ڈار—فوٹو: ڈان نیوز

قبل ازیں وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے ملک کے حالات انتخابات کے لیے ناسازگار قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو فنڈز جاری کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے بل پیش کر دیا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں اسپیکر راجا پرویز اشرف نے وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لیے فنڈز کی دستیابی کا بل ایوان میں پیش کرنے منظوری دی۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ حکومت پارلیمان کی بالادستی، آئین اور قانون کی بالادستی پر پختہ یقین رکھتی ہے، پی ٹی آئی نے ایک باقاعدہ منظم سازش کے ذریعے ملک میں آئین اور قانونی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، قومی اسمبلی سے استعفے پیش کیے اور عوام کے مینڈیٹ کی توہین کی اور اس کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی اور خیبرپختونخوا اسمبلی کو مقررہ مدت سے پہلے تحلیل کروایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان اقدامات کا واحد مقصد وطن عزیز میں سیاسی افراتفری اور لاقانونیت کو ہوا دینا ہے، ملک میں انتخابات کا ہونا ایک آئینی ذمہ داری ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت میں نگراں حکومتوں کے زیر اہتمام کرائے جائیں، اس سے اخراجات کی مد میں بچت کی جاسکتی اور انتخابات منصفانہ، آزادانہ اور غیرجانب دارانہ بنایا جاسکتا ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ آئین پاکستان کے تحت پارلیمنٹ کی بالادستی ایک مسلمہ حقیقت ہے، اس کے ساتھ ساتھ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات اور حدود کا تعین کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں آزادانہ، شفاف اور غیرجانب دارانہ انتخابات کرائیں، گزشتہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی سیکیورٹی، معاشی اور داخلی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ فوری انتخابات ملک کے مفاد میں نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری کا عمل بھی تقریباً مکمل ہونے کے قریب ہے، جس پر قوم نے 35 ارب کا خرچہ برداشت کیا ہے، سپریم کورٹ کے حالیہ کئی احکامات کی روشنی میں اس معزز ایوان نے ایک قرارداد کے ذریعے باور کرایا کہ سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ 4-3 کا فیصلہ ہے، جس میں از خود نوٹس کی نفی کی جاتی ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ اس ایوان نے حکومت پر زور دیا کہ 3-0 کا فیصلہ اقلیتی ہے، اس پر عمل نہ کیا جائے، وفاقی کابینہ نے حالیہ اجلا س میں اس ایوان کی قرارداد اور سپریم کورٹ کے احکامات پر غور و خوض کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ اس معزز ایوان کی روشنی میں عدالت کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لیے رقم مختص کرنے کے حکم کو اس ایوان میں پیش کرے تاکہ یہ ایوان فیصلہ کرے۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں منی بل 2023 بعنوان پنجاب اور خیبرپختونخوا بل اس ایوان میں پیش کیا جارہا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت وفاقی حکومت کو صوبائی انتخابات کے لیے 21 ارب روپے الیکشن کمیشن کو دینے کے احکامات جاری کیے ہیں اور یہ حکومت دیگر صوبوں کے بغیر کرائے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی روشنی میں آئین کے آرٹیکل 81 ای کے تحت منی بل متعارف کروایا جا رہا ہے۔

’ملکی معیشت کے گزشتہ 5 سال کا جائزہ‘

بل پیش کرنے سے قبل وزیرخزانہ نے کہا کہ منی بل 2023 کے موضوع پر ایوان کو اعتماد میں لینے سے قبل گزشتہ 5 سال کی معیشت کی تاریخ کا جائزہ پیش کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ مالی سال 17-2016 تک وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں پاکستان کی معیشت کی شرح نمو 6 فیصد تک پہنچی تھی، افراط زر کی شرح 4 فیصد، کھانے پینے کی چیزوں کی مہنگائی میں سالانہ اوسطاً 2 فیصد، شرح سود 6 فیصد اور اسٹاک ایکسچینج ایشیا میں نمبر ایک اور پوری دنیا میں 5 نمبر پر تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان خوش حالی اور معاشی ترقی کی جانب گامزن تھا اور دنیا پاکستان کی ترقی کی معترف تھی اور عالمی ادارے کے مطابق 2030 جی-20 میں شامل ہونے جا رہا تھا۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ پاکستان کا روپیہ مستحکم اور زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب کا بلند ریکارڈ قائم کرچکے تھے ، ان حالات میں منتخب جمہوری حکومت کے خلاف سازشوں کے جال بچائے گئے اور اس کے نتیجے میں ایک سلیکٹڈ حکومت وجود میں آئی جو ایک غیرسیاسی تبدیلی تھی، جس نے کامیاب اور بھرپور مینڈیٹ کی حکومت کی دی گئی پالیسیوں کو شدید نقصان پہنچایا۔

ان کا کہنا تھا کہ جو ملک 2017 میں دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بن چکا تھا گر کر 2022 میں گر 47 ویں نمبر پر آگیا لیکن گزشتہ برس شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت آئی تو ایک تباہ شدہ معیشت ورثے میں ملی، مالیاتی خسارہ بلند ترین سطح 7.9 فیصد تھا، بیرونی ادائیگیوں کا خسارہ 17.4 ارب ڈالر تھا، تجاری خسارہ 40 ارب ڈالر پر پہنچ چکا تھا، معیشت تباہی کے دہانے پر تھی، 2013 سے 2018 کے درمیان پاکستان کی معیشت مضبوط بناد پر کھڑی ہو گئی تھی، جس سے ہمارے پیش رو نے تباہ و برباد کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کو سب سے بڑا چیلنج ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا تھا، حکومت نے ان تھک محنت سے یہ کام اب تک پورا کیا۔

انہوں نے کہا کہ اگلا مرحلہ عوام کو خوش حال راہ کا تعین اور عوام کو ریلیف پہنچانے کا ہے لیکن سازشی عناصر ملک کی ترقی میں ہر وقت رکاوٹیں کھڑی کر تے ہیں۔

’سازشی عناصر نے آئینی بحران پیدا کردیا ہے‘

وزیرخزانہ نے کہا کہ سازشی عناصر ملک کو معاشی طور پر دیوالیہ نہ کرسکے تو اب ملک میں بڑی سازش کے ذریعے آئینی بحران پیدا کرچکے ہیں، پی ٹی آئی کی قیادت کوشش کررہی ہے کہ قوم میں مایوسی پھیلے، ان کی خواہش ہے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہ ہوسکے اور پاکستان خدانخواستہ دیوالیہ ہو جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ لگاتار افواہیں پھیلاتے ہیں اور حال ہی میں میرے امریکا کے دورے کی منسوخی کی غلط خبریں پھیلائیں اور بے بنیاد تجزیے پیش کیے، یہ ملک دشمنی پر اتر آئے ہیں اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، جس سے اقوام عالم میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی ایم ایف کے معاہدے پر عمل نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس کام کیے جس کی وجہ سے پاکستان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ یوکرین جنگ اور سیلاب کی وجہ سے معیشت کو نقصان پہنچا اور ہماری حکومت نے مشکل حالات میں ریاست کو اپنی سیاست پر ترجیح دیتےہوئے بڑے مشکل فیصلے کیے، اگر ایسا نہ کیا جاتا تو ملک دیوالیہ ہوچکا ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان فیصلوں کی وجہ سے موجودہ مخلوط حکومت نے بے پناہ نقصان اٹھایا اور اس کے عوض ملک کی معاشی تنزلی کو تھام لیا اور اب ہم معاشی استحکام سے ترقی پر چل پڑے ہیں۔

’موجودہ حالات پی ٹی آئی کی معاشی بدانتظامی کا شاخسانہ ہیں‘

وزیرخزانہ نے کہا کہ ہماری پوری کوشش ہےکہ سابقہ حکومت کے وعدے پورے کرتے ہوئے آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کریں اور پاکستان کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرے گی اور اس حوالے سے عملے کی سطح پر معاہدے پر جلد دستخط کیے جائیں گے۔

اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے الزامات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، آج کی خراب معاشی صورت حال صرف پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے کیونکہ یہ گزشتہ 4 سال کی معاشی بدانتظامی کا شاخسانہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی معاشی خرابی اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور 2022 میں بدترین سیلاب نے ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ کردیا، سیلاب کی وجہ سے ملک کی املاک کو 14 ارب ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ جی ڈی پی کو 16 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے 16 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے، حکومت نے پچھلے ماہ بینظیر انکم سپورٹ فنڈ کی مد 25 فیصد اضافہ کردیا اور بجٹ 360 ارب سے بڑھا کر 400 ارب کر دیا گیا۔

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ حکومت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مفت آٹا اسکیم اور وزیراعظم ریلیف پیکیج اور رمضان پیکیج دے رہی ہے اور اس مد میں موجودہ مالی سال میں 23 ارب روپے کی سبسڈی فراہم کر رہی ہے۔

’کرنٹ اکاؤنٹ میں 70 فیصد کمی‘

ان کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں تقریباً 70 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور یہ رواں سال کے پہلے 8 ماہ میں 3 ارب 86 کروڑ ڈالر پر آچکا ہے، درآمدات میں کمی ہوئی، مشکل فیصلوں کی وجہ سے ملک دیوالیہ سے بچ گیا اور زرمبادلہ کے ذخائر میں گراوٹ کم کیا۔

انہوں نے کہا کہ مالی سال 2022 کی تیسری سہ ماہی یعنی اس حکومت کے آغاز اور پچھلی حکومت کی آخری سہ ماہی میں 6 ارب 40 کروڑ ڈالر کے حساب سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوئی اگر اسی رفتار سے کمی جاری رہتی تو پاکستان کب کا دیوالیہ کرجاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) 2013 میں 503 ارب گردشی قرضہ ملا جو 2018 تک 1148 تک پہنچا جبکہ پی ٹی آئی کے غیرسنجیدہ رویے کی وجہ سے توانائی کا شعبہ شدید بدنظمی کا شکار ہوا اور گردشی قرضوں میں 1319 ارب کا اضافہ ہوا اور 2 ہزار 467 ارب پر پہنچ گیا۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان کا مجموعی قرضہ مالی سال 2018 میں 25 ہزار ارب تھا جو صرف 4 سال میں 19 ہزار ارب سے اضافہ ہو کر 44 ہزار ارب پر پہنچ گیا اور 4 سال میں 76 فیصد اضافہ ہوا اور پچھلی حکومت نے جانے سے پہلے 80 فیصد اضافہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت جولائی 2022 سے اب تک ماضی کے تقریباً 12 ارب ڈالر کی بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کر چکی ہے اور اب تک ادائیگیاں بروقت ہو رہی ہیں، اس کے باوجود پاکستان کے قومی زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب 60 کروڑ ڈالر ہیں، جس میں مرکزی بینک کے پاس 4 ارب 10 کروڑ اور کمرشل بینکوں کے پاس 5 ارب 50 کروڑ ڈالر موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے حکمت عملی بنائی ہے کہ اسی سہ ماہی میں زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 13 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں