مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ملک کو درپیش بے شمار مسائل کے حل کا واحد راستہ ’قومی مذاکرات‘ ہیں۔

سابق وزیراعظم نے ان خیالات کا اظہار بدھ کی شب ڈان نیوز کے پروگرام ’لائیو ود عادل شاہ زیب‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹرمصطفی نواز کھوکھر کے ساتھ ’ری امیجننگ پاکستان‘ نامی مہم میں شریک شاہد خاقان عباسی نے انٹرویو کے دوران کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کو آگے آنا چاہیے اور ملکی مسائل کے حل کے لیے قومی مذاکرات کا اعلان کرنا چاہیے، آج یہ ان کی ذمہ داری ہے۔

تاہم سابق وزیر اعظم نے زور دے کر یہ بھی کہا کہ انتخابات کا انعقاد ’ثانوی اہمیت‘ کا حامل ہے اور الیکشن ملک کو درپیش مسائل کا حل نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیک ہولڈرز کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ سیاست کرتے رہیں گے اور ملک کو اسی طرح سے چلائیں گے جیسے ماضی میں چلاتے رہے۔

انٹرویو کے دوران جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) بھی قومی بات چیت کے انعقاد کے خیال کو سپورٹ کرے گی؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ’’میں پارٹی کا ترجمان نہیں ہوں، لیکن اگر کسی کے پاس ملکی مسائل کے حل کے لیے کوئی اور طریقہ موجود ہے تو وہ تجویز کر سکتا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ میرا خیال ہے کہ آگے بڑھنے کا یہ ہی واحد راستہ ہے، پاکستان کے مسائل کا کوئی اور حل نہیں ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا کسی ایک سیاسی جماعت میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ تن تنہا ملک کے مسائل حل کر سکے؟ کیا گزشتہ ڈیڑھ سال میں کسی سیاسی جماعت نے ملکی مسائل پر بات کی ؟

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’ہم (سیاستدانوں) نے ایک دوسرے کو گالیاں دیں، ایک دوسرے کو جیلوں میں ڈالا، ایک دوسرے کی تضحیک و تذلیل کی، ہم نے پارلیمنٹ کو مفلوج کیا اور اسے لا یعنی و بے معنیٰ تبادلہ خیال کی جگہ بنا دیا لیکن ہم میں سے کسی نے بھی ملکی مسائل کے بارے میں بات نہیں کی۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما کی جانب سے یہ بیان یسے وقت میں آیا ہے جب کہ حکمران اتحاد پی ٹی آئی کے ساتھ انتخابات پر بات چیت کرنے پر تقسیم کا شکار دکھائی دے رہا ہے، گزشتہ ہفتے پیپلز پارٹی نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ متنازع مسائل کو حل کرنے کے لیے مل کر بیٹھیں جب کہ مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ایف) نے عمران خان کی زیر قیادت جماعت کے ساتھ بات چیت کے خیال کو مسترد کر دیا تھا۔

حکمران مسلم لیگ (ن) خود اس معاملے پر منقسم ہے، اس کے کچھ رہنماؤں جیسے سینیٹر مشاہد حسین سید نے زور دے کر کہا کہ انہیں پی ٹی آئی سے بات کرنی چاہیے جب کہ کچھ دوسرے رہنماؤں جیسے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اس خیال کی مخالفت کر رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی نے مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی۔

دوسری جانب گزشتہ ہفتے سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کے معاملے پر مشترکہ پوزیشن لینے کے لیے مخلوط حکومت میں شامل تمام جماعتوں سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرنے والی پاکستان پیپلزپارٹی نے اس مقصد کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی۔

اس سے قبل پارٹی کے میڈیا سیل کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مخلوط حکومت میں شامل اتحادیوں اور تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت پر اتفاق رائے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ کمیٹی میں وزیر تجارت سید نوید قمر، وزیراعظم کے مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ اور پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی شامل ہیں۔

بعد ازاں اس کمیٹی کے ارکان نے اسلام آباد میں وزیر نارکوٹکس نوابزادہ شازین بگٹی سے ملاقات کے بعد ان کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کی، قمر زمان کائرہ نے کہا کہ جمہوریت ڈائیلاگ سے چلتی ہے، ڈیڈلاک سے نہیں، سیاسی جماعتوں اور اداروں کے اندر اختلاف ہے۔

یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ اس وقت ملک مشکل حالات میں ہے، سیاسی جماعتیں ہمیشہ ڈائیلاگ کرتی ہیں، نواز شریف اور بے نظیر نے جلاوطنی میں ڈائیلاگ کرکے سی او ڈی بنایا، ملک میں اس وقت جمہوریت بے نظیر اور نوازشریف کی وجہ سے ہے، آصف علی زرداری نے میثاق جمہوریت پر عمل کیا، ہم نے شاہ زین بگٹی سے درخواست کی ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال اور ٹنشن کو ختم کیا جائے۔

یوسف رضاگیلانی نے کہا کہ نواب شاہ زین بگٹی اپنی پارٹی کے سربراہ ہیں، اسی لیے ہم ان کے پاس آئے ہیں، ملکی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اتحادیوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، ملک کا سیاسی درجہ بڑھ رہا ہے اسی کو کم کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں