سوڈان: عیدالفطر کے موقع پر بھی جنگ بندی کا مطالبہ نظراندز، ہلاکتوں کی تعداد 300 ہوگئی

21 اپريل 2023
سوڈان میں عیدالفطر کی رات بھی لڑائی جاری رہی—فوٹو: اے ایف پی
سوڈان میں عیدالفطر کی رات بھی لڑائی جاری رہی—فوٹو: اے ایف پی

سوڈان کے دارالحکومت خرطوم اور آس پاس کے علاقوں میں ساتویں روز بھی فوج اور پیرا ملٹری فورسز کے درمیان لڑائی جاری ہے اور ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 3 سو گئی ہے اور ہزاروں شہری زخمی ہوگئے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’’اے ایف پی‘ کے مطابق رمضان کے اختتام پر عالمی طاقتوں کی جانب سے جنگ بندی کے مطالبے کے باوجود 2021 میں فوجی حکومت قائم کرنے والے فورسز کے دو جرنیلوں آرمی چیف عبدالفتح البرہان اور ان کے نائب طاقت ور پیراملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے کمانڈر محمد ہمدان دیگلو نے ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دونوں جرنیلوں کے درمیان گزشتہ ہفتے شروع ہونے والی لڑائی میں شدید فائرنگ اور گولہ باری کا استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے 300 سے زائد لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں اور ہزاروں زخمی ہیں جبکہ دیگر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

سینٹرل کمیٹی آف سوڈان ڈاکٹرز نے کہا کہ دارالحکومت خرطوم میں رات کو جب رمضان المبارک کے اختتام پرعیدالفطر کی تیاریاں شروع کی جا رہی تھیں تو دونوں فریقین کے درمیان لڑائی شروع ہوگئی جہاں متعدد علاقوں میں جھڑپوں اور شیلنگ کے ساتھ ساتھ بمباری بھی کی گئی۔

فوٹو: سوڈان ڈاکٹرز یونین فیس بُک
فوٹو: سوڈان ڈاکٹرز یونین فیس بُک

رپورٹ کے مطابق خرطوم کے کثیر آبادی والے اضلاع کو فضائی حملوں اور ٹینکوں کی فائرنگ کے سبب شدید لڑائی کا سامنا کرنا پڑا جہاں تقریباً 50 لاکھ لوگ سخت گرمی میں پانی، خوراک اور بجلی کے بغیر گھروں تک محدود ہوگئے ہیں جبکہ مواصلات کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور اقوام متحدہ کےسیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے عید کے تین دنوں تک جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔

آر ایس ایف نے یقین دہانی کرائی کہ وہ 72 گھنٹوں تک جنگ بندی پر کاربند رہیں گے جس کا آغاز نماز فجر سے ہوا۔

تاہم اس سے قبل دونوں فریقین کی طرف سے 24 گھنٹوں کی جنگ بندی کے باوجود لڑائی کا کا سلسلہ جاری رہا تھا۔

رپورٹ کے مطاق آج (جمعے) کے روز بھی دارالحکومت میں فضائی حملے اور شدید فائرنگ جاری رہی جس کی وجہ سے خرطوم میں دھویں کے سیاہ بادل چھا گئے۔

گزشہ روز آرمی چیف عبدالفتح البرہان کے سیکڑوں حامیوں نے متحدہ عرب امارات کے سفارت کار کی موجودگی کے خلاف سوڈان پورٹ پر احتجاج کیا جن پر الزام ہے کہ ان کا کمانڈر محمد ہمدان دیگلو سے رابطہ ہے۔

متحدہ عرب امارات کے سفیر کے خلاف احتجاج—فوٹو: اے ایف پی
متحدہ عرب امارات کے سفیر کے خلاف احتجاج—فوٹو: اے ایف پی

مظاہرین کے پاس موجود بینرز پر لکھا ہوا تھا کہ ’ملکی معاملات میں بیرونی مداخلت قبول نہیں۔‘

تجزیہ نگاروں نے خبردار کیا ہے کہ خطے بھر کے ممالک کو اس تنازع میں گھسیٹا جا رہا ہے۔

لڑائی شروع ہونے کے بعد پہلی بار آرمی چیف عبدالفتح البرہان فوجی لباس میں ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئے اور کہا کہ ’اس سال عید پر، ہمارے ملک میں خون بہایا جا رہا ہے اور خوشیوں کی جگہ تباہی، تکلیف اور گولیوں کی گونج نے لے لی ہے۔‘

آرمی چیف نے کہا کہ ہم پُرامید ہیں کہ اس آزمائش سے مضبوط ہوکر نکلیں گے جہاں سویلین حکمرانی کے لیے فوج اور عوام ایک ہوں گے۔

انٹرنیشنل کرائسز گروپ (آئی جی سی) نے خبردار کیا کہ مکمل طور پر پھیلی ہوئی خانہ جنگی میں اضافے کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے اور سوڈان میں بہت سے لوگوں کو یہ سب ڈراؤنا خواب محسوس ہو رہا ہے۔

تاہم ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا کہ لڑائی کی وجہ سے لاکھوں لوگ بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں جہاں ملک کی ایک تہائی آبادی یعنی ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو امداد کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ورلڈ فوڈ پروگرام کے تین ملازمین کی ہلاکت کے بعد فنڈ پروگرام نے سوڈان میں اپنی سرگرمیاں معطل کردی تھیں۔

رپورٹ کے مطابق دارالحکومت خرطوم میں دونوں فورسز کے درمیان لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب آر ایس ایف کو فوج میں شامل کرنے کے منصوبے پر برہان اور دیگلو کے درمیان اختلافات ہوئے۔

دونوں کمانڈروں کی جانب سے 2021 میں فوجی حکومت قائم کرنے کے بعد حتمی معاہدے کی یہ بنیادی شرط تھی۔

’انہیں کوئی پرواہ نہیں‘

رپورٹ کے مطابق دونوں جرنیلوں کے درمیان لڑائی کی وجہ سے ہزاروں افراد خرطوم سے فرار ہونے کے لیے ان خطرناک سڑکوں اور گلیوں سے گزنرے کا خطرہ مول لے رہے ہیں جو لاشوں سے بھری پڑی ہیں۔

دارالحکومت کے ایک رہائشی 53 سالہ عبدالواحد اوتھمان نے کہا کہ یہ واضح طور پر اقتدار کی جنگ ہے، ان کو غریب شہریوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے جو پانی، خوراک اور بجلی کے بغیر بیٹھے ہوئے ہیں۔

شہریوں کے ممکنہ انخلاء کے لیے بین الاقوامی کوششوں بھی کی جا رہی ہے جس میں امریکی سفارت خانے کے عملے کے ممکنہ ہوائی اڈے کے لیے افواج کی تعیناتی بھی شامل ہے۔

ڈاکٹرز یونین کا کہنا ہے کہ طبی ماہرین نے تباہی سے خبردار کرتے ہوئے بتایا ہے کہ لڑائی کی وجہ سے دارالحکومت خرطوم اور پڑوسی ریاستوں میں دو تہائی سے زیادہ ہسپتالیں سروسز کی فراہمی سے قاصر ہیں۔

ادھر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزشین نے کہا کہ سوڈان بھر میں 330 لوگ ہلاک اور 3ہزار 200 سے زائد زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں مگر طبی ماہرین نے خبردار کیا کہ ہلاکتوں میں مزید اضافہ ممکن ہے کیونکہ بہت سے زخمی شہری ایسے بھی ہیں جو ہسپتالوں تک نہیں پہنچ سکے۔

واضح رہے کہ دونوں فوجی جرنیلوں نے اپریل 2019 میں صدر عمر البشیر کی تین دہائیوں پر محیط حکمرانی کے خلاف مظاہروں کے بعد اس کا تختہ الٹ دیا تھا۔

سوڈان میں فوجی کمانڈروں کی جانب سے حکومت پر قبضے سے 2019 میں اس وقت کے صدر عمر البشیر کو ہٹا کر سول بالادستی کی تحریک بھی ختم ہوگئی تھی اور ملک میں معاشی بحران بھی پیدا ہوا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں