ایشیا میں کم عمری کی شادیوں کے خاتمے کیلئے اب بھی 55 سال درکار

اپ ڈیٹ 04 مئ 2023
جن خواتین کی کم عمری میں شادی ہوتی ہے ان میں سے اکثریت کے غریب گھرانوں سے تعلق کا غالب امکان ہے— فائل/فوٹو: رائٹرز
جن خواتین کی کم عمری میں شادی ہوتی ہے ان میں سے اکثریت کے غریب گھرانوں سے تعلق کا غالب امکان ہے— فائل/فوٹو: رائٹرز

اقوام متحدہ کی بدھ کو جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم عمری کی شادیوں میں عالمی سطح پر کمی کے حوالے سے جنوبی ایشیا سرفہرست ہے لیکن اس کے مکمل خاتمے کے لیے اب بھی 55 سال درکار ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2030 تک کم عمری کی شادی کے خاتمے کے اقوام متحدہ کے ہدف کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا میں اس سلسلے میں اصلاحات کی رفتار کو سات گنا تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

جنوبی ایشیا میں کمر عمری کی شادیوں میں کمی کے حوالے سے مالدیپ اور سری لنکا کے بعد پاکستان تیسرے نمبر پر ہے لیکن بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان، نیپال اور بھوٹان سے آگے ہے، پاکستان میں تقریباً 18 فیصد خواتین کی اب بھی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے، جو کہ 19 فیصد کی عالمی اوسط سے قدرے بہتر ہے۔

بدھ کو جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں اب بھی تقریباً ایک کروڑ 90 لاکھ کم سن دلہنیں ہیں کیونکہ ملک میں ہر 6 میں سے ایک نوجوان لڑکی کی شادی کم عمری میں کر دی جاتی ہے۔

پاکستان میں شادی کے لیے کم از کم قانونی عمر 18 سال ہے لیکن تقریباً 18 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال سے پہلے کر دی جاتی ہے، ایک دلہن اور اس کے دولہے کے درمیان عمر کا فرق اکثر 40 سے 60 سال کے درمیان ہوتا ہے، 51 فیصد کے ساتھ بنگلہ دیش میں کم عمری کی شادیوں کی شرح جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے، مالدیپ میں 2 فیصد کے ساتھ یہ شرح سب سے کم ہے۔

بھارت میں بچپن میں شادی کرنے والی خواتین کی سب سے زیادہ تعداد ہے، کم عمری میں شادی کرنے والی ہر تین میں سے ایک دلہن بھارت میں رہتی ہے، بھارت میں تقریباً 34 فیصد خواتین ایسی ہیں جن کی کم عمری میں شادی ہوئی، بھارتی خواتین کی اکثریت کی کم عمری میں شادی ہوئی اور 20 سال کی عمر سے قبل ہی بچے کو جنم دیا۔

کم عمری کی شادیوں میں کمی کے حوالے سے جنوبی ایشیا دنیا میں سب سے آگے ہے، اس کے باوجود جنوبی ایشیا میں ہر چار میں سے ایک نوجوان عورت کی 18 سال سے پہلے شادی ہو چکی ہوتی ہے۔

اس خطے میں تقریباً 29 کروڑ خواتین ایسی ہیں جن کی کم عمری میں شادی ہو چکی ہے اور تعداد 45 فیصد بنتی ہے، کم عمری کی شادی کی شرح پورے خطے میں ہر جگہ مختلف ہے جہاں بنگلہ دیش میں 50 فیصد ایسی خواتین ہیں تو مالدیپ میں یہ شرح 2 فیصد ہے۔

پاکستان، بھارت، نیپال اور بنگلہ دیش میں جن خواتین کی کم عمری میں شادی ہوتی ہے ان کا ماننا ہے کہ بیوی کو مارنا جائز ہے اور وہ اکثر خود اس طرح کے تشدد کا سامنا کر چکی ہیں۔

پاکستان میں 55 فیصد دلہنوں کا کہنا ہے کہ بیوی کو مارنا جائز ہے، بھارت میں بھی 41 فیصد دلہنیں یہی کہتی ہیں، بنگلہ دیش میں 33 فیصد اور 28 فیصد بھی بیوی کو مارنے کا جواز پیش کرتی ہیں، جنوبی ایشیا میں جن خواتین کی کم عمری میں شادی ہوتی ہے ان میں سے اکثریت کے غریب گھرانوں سے تعلق کا غالب امکان ہے، وہ کم تعلیم یافتہ ہوتی ہیں اور دیہی علاقوں میں رہتی ہیں۔

خطے میں ہر چار میں سے تین دلہنیں نوعمری میں ہی بچوں کو جنم دیتی ہیں جبکہ جنوبی ایشیا میں جن لڑکیوں کی کم عمری میں شادی ہوتی ہے ان میں سے اکثر اسکول جانے سے بھی محروم رہ جاتی ہیں۔

تاہم، یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر کم عمری کی شادیوں میں مسلسل کمی آرہی ہے، جس کی بنیادی وجہ بھارت میں ایسی شادیوں میں کمی ہے، جو اب بھی دنیا بھر میں کم عمری میں ہونے والی شادیوں کا مرکز ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں