بھارت میں شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس، بلاول بھٹو کی روسی ہم منصب سے ملاقات

اپ ڈیٹ 04 مئ 2023
روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاروف سے وزیرخآرجہ نے غیررسمی ملاقات کی—فوٹو:بشکریہ اے این آئی
روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاروف سے وزیرخآرجہ نے غیررسمی ملاقات کی—فوٹو:بشکریہ اے این آئی
بلاول بھٹو نے کہا کہ میں گووا میں پاکستانی وفد کی قیادت کروں گا —فوٹو: ٹوئٹر/اے این آئی
بلاول بھٹو نے کہا کہ میں گووا میں پاکستانی وفد کی قیادت کروں گا —فوٹو: ٹوئٹر/اے این آئی

وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کی شنگھائی تعاون تنطیم(ایس سی او) کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کے شہر گووا پہنچنے کے بعد روسی ہم منصب سرگئی لاروف سے غیررسمی ملاقات ہوئی۔

دفترخارجہ کے مطابق دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے باہمی دلچسپی کے دوطرفہ، علاقائی اور بین الاقومی امور پر تبادلہ خیال کیا اور دونوں ممالک کے دردمیان فوڈ سیکیورٹی، توانائی اور عوامی روابط کے تحت تعلقات مزید گہرے بنانے کے لیے ایک دوسرے کو یقین دہانی کرائی۔

دفترخارجہ نے بیان میں کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم نے روس کے ساتھ تعاون اور رابطہ کاری کے نئے دروازے کھولے ہیں۔

اس سے قبل وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کے شہر گووا پہنچے۔

ٹوئٹر پر ویڈیو پیغام میں بلاول بھٹو نے گووا پہنچنے کی تصدیق کی اور وہ ایک دہائی سے زائد عرصے بعد بھارت کا دورہ کرنے والے پہلے وزیرخارجہ بن گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’بالآخر ہم شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر گووا پہنچے ہیں، سب سے پہلے میری ملاقات روس کے وزیرخارجہ سے ہوگی، اس کے بعد ازبکستان کے وزیرخارجہ سےملوں گا اور پھر تمام وزرائے خارجہ کے لیے کھانا جس میں شرکت کروں گا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ’ایک دو انٹرویوز دوں گا جو آج کا پروگرام ہے‘۔

وزیرخارجہ گووا پہنچ گئے

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کے شہر گووا پہنچ گئے۔

بھارتی خبر رساں ایجنسی ’اے این آئی‘ نے گووا میں بلاول بھٹو کی چینی ہم منصب چن گانگ کے ہمراہ تصاویر شیئر کیں۔

2011 کے بعد بھارت کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی وزیر خارجہ نے گوا پہنچنے کے بعد اپنے بیان میں توقع ظاہر کی ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا اجلاس کامیاب رہے گا، شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت اور پاکستانی وفد کی قیادت کرنا میرے لیے خوشی کا باعث ہے۔

سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ میں امید رکھتا ہوں کہ ایس سی او کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا اجلاس بہت ہی کامیاب رہے گا۔

قبل ازیں، اپنی روانگی سے قبل جاری ایک بیان میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ممالک کے ساتھ باہمی روابط کے منتظر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’میں گووا میں پاکستانی وفد کی قیادت کروں گا، اجلاس میں میری شرکت کا فیصلہ یہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان ایس سی او اور اس کی رکنیت کو کتنی اہمیت دیتا ہے‘۔

بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ ’شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس پر مرکوز اس دورے کے دوران میں رکن ممالک اور دوست ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ تعمیری گفتگو کا منتظر ہوں‘۔

اس سے قبل ترجمان دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ ’بلاول بھٹو کراچی سے گووا روانہ ہوگئے ہیں‘، تاہم وزیر خارجہ کے ہمراہ جانے والے وفد کی تفصیلات فی الوقت دستیاب نہیں ہیں۔

آخری بار جولائی 2011 میں اس وقت کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے امن مذاکرات کے لیے بھارت کا دورہ کیا تھا، اس کے بعد یہ پاکستان کے کسی وزیر خارجہ کا یہ پہلا دورہ بھارت ہے۔

دریں اثنا وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کا شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ تنظیم کے چارٹر کی پاسداری کے لیے ملک کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ’ہم خطے میں امن اور استحکام کی مشترکہ اقدار کو آگے بڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں، ہم سب تعلق، تجارت اور باہمی طور پر مفید تعاون کی بنیاد پر یکساں فائدے پر یقین رکھتے ہیں‘۔

خیال رہے کہ بلاول بھٹو زرداری کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں روایتی حریفوں کے درمیان تعلقات کئی عوامل کے باعث تناؤ کا شکار ہیں۔

پاکستان نے پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ وزیر خارجہ اس دورے کے دوران اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ کوئی بالمشافہ ملاقات نہیں کریں گے۔

بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنے اس دورے کے حوالے سے قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس دورے کو دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کی علامت کے طور پر تعبیر نہیں کیا جانا چاہیے۔

وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی کوئی درخواست نہیں کی ہے، اس دورے کو شنگھائی تعاون تنظیم کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے جو 8 رکنی سیاسی اور سیکیورٹی بلاک ہے جس میں روس اور چین بھی شامل ہیں، پاکستان خود کو مزید تنہا کرنے کی اجازت بھارت کو ہر گز نہیں دے سکتا۔

وزرائے خارجہ کے اجلاس میں اہم علاقائی اور بین الاقوامی امور پر غور اور کچھ ادارہ جاتی دستاویزات پر دستخط کرنے کے علاوہ رواں برس 3 اور 4 جولائی کو نئی دہلی میں منعقد ہونے والی 17ویں ایس سی او کونسل آف ہیڈز آف اسٹیٹ اجلاس کے ایجنڈے اور فیصلوں کو حتمی شکل دی جائے گی۔

اجلاس کے موقع پر وزیر خارجہ کی دوست ممالک کے ہم منصبوں سے ملاقات بھی متوقع ہے۔

بھارت نے دیگر وسطی ایشیائی ممالک کے علاوہ چین اور روس کے وزرائے خارجہ کو بھی دعوت نامے بھیجے ہیں، ایران شنگھائی تعاون تنظیم کا سب سے نیا رکن ہے اور وہ پہلی بار شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں باضابطہ رکن کے طور پر شرکت کرے گا۔

وزیر خارجہ کے دورے پر پی ٹی آئی تقسیم

دریں اثنا سابق وزیر خارجہ اور رہنما پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم ایک اہم فورم ہے جس کا پاکستان کو استعمال کرنا چاہیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان ایس سی او کا رکن ہے اور ایس سی او ایک اہم فورم ہے، اگر ہم سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی انضمام چاہتے ہیں تو یہ ایک اہم فورم ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو خطے کی بہتری کے لیے فورم کا استعمال کرنا چاہیے، اگر بلاول بھٹو اِس کثیرالجہتی فورم کے لیے گئے ہیں تو میری نظر میں کوئی حرج نہیں ہے۔

تاہم پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے بلاول کے دورہ بھارت کی شدید مذمت کی۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ بلاول بھٹو ویڈیو لنک پر اجلاس میں شرکت کر سکتے تھے لیکن مودی کی محبت میں ان حکمرانوں کے لیے کشمیریوں پر مظالم اور مسلمانوں اور اقلیتوں کے ساتھ ظلم کی کوئ اہمیت نہیں۔

انہوں نے لکھا کہ اس دورے کی شدید مذمت کرتے ہیں، مودی جنتا کو خوش کرنے کے لیے یہ حکمران ہر حد پار کرنے کو تیار ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں