پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ: عدالت کا پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ کل تک جمع کرانے کا حکم

اپ ڈیٹ 08 مئ 2023
بل کے خلاف تینوں درخواستیں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر کی گئی تھیں — فوٹوز: سپریم کورٹ ویب سائٹ
بل کے خلاف تینوں درخواستیں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر کی گئی تھیں — فوٹوز: سپریم کورٹ ویب سائٹ

چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات میں کمی کے حوالے سے ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران عدالت نے اٹارنی جنرل کو پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ کل تک جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ کے 8 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے درخواست دائر کی ہے، مسلم لیگ (ن) نے بھی فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالت کو درخواست دے دی، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست پر تو ابھی نمبر بھی نہیں لگا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے دستاویزات جمع کروا دی ہیں، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ توقع ہے کل تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ مل جائے گا، اسپیکر آفس سے باضابطہ اور غیر رسمی طور پر بھی رابطہ کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت قرار دے چکی ہے کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے، عدلیہ کی آزادی آئین کا بنیادی جزو ہے، قانون میں بینچوں کی تشکیل اور اپیلوں کا معاملہ طے کیا گیا ہے، عدالتی اصلاحات بل میں وکیل کی تبدیلی کا بھی حق دیا گیا ہے، قانون میں جو معاملات طے کیے گئے وہ انتظامی نوعیت کے ہیں، سپریم کورٹ کے رولز فل کورٹ نے تشکیل دیے تھے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز میں ترمیم بھی فل کورٹ ہی کرسکتی ہے، عدلیہ کی آزادی اور رولز سے فیصلہ و مقدمہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے، قانون براہ راست ان ججز پر بھی لاگو ہو گا جو مقدمہ نہیں سن رہے۔

سوال قانون سازی کے اختیارات کا ہے رولز میں ترمیم کا نہیں، جسٹس اعجازالاحسن

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ سوال قانون سازی کے اختیارات کا ہے رولز میں ترمیم کا نہیں، قانون سازی کے اختیار کے مقدمات مختلف بینچز معمول میں سنتے رہتے ہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا ماضی میں ایسی قانون سازی ہوئی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 1992 تک رولز بنانے کے لیے صدر کی اجازت درکار تھی۔

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 91 کے ہوتے ہوئے ایسی قانون سازی کیسے ہو سکتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر کی اجازت کا اختیار واپس لے لیا گیا تھا، رولز آئین و قانون کے مطابق بنانے کی شق برقرار رکھی گئی، ماضی میں کبھی ایسا مقدمہ نہیں آیا اس لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کئی مقدمات اپنی نوعیت کے پہلے ہوتے ہیں، سپریم کورٹ کا کوئی بھی بینچ کوئی بھی مقدمہ سن سکتا ہے، کیا حکومت فل کورٹ کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے؟ رولز اور آئین اور قانون کے تحت کیا حکومت چاہتی ہے عدالت کی اندرونی بحث باہر آئے؟

انہوں نے استفسار کیا کہ ہر مقدمہ اہم ہوتا ہے، یہ تعین کیسے ہوگا کہ کون سا کیس فل کورٹ سنے؟ کیا عدلیہ کی آزادی کا ہر مقدمہ فل کورٹ نے سنا تھا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کے تمام مقدمات فل کورٹ نے نہیں سنے لیکن افتخار چوہدری کیس سمیت کئی مقدمات فل کورٹ نے سنے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بظاہر یہ آپ کا مقدمہ نہیں لگتا کہ فل کورٹ بنائی جائے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ افتخار چوہدری کیس مختلف نوعیت کا تھا۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ عوام کا اعتماد فل کورٹ پر ہے، عدالت درخواست گزار کی خواہش پر اپنی کارروائی کیسے ریگولیٹ کرے؟

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ رولز بنانے کا اختیار فل کورٹ کو انتظامی امور میں ہے، اگر 3 رکنی بینچ کے سامنے رولز کی تشریح کا مقدمہ آجائے تو کیا وہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے، فل کورٹ اپنے رولز بنا چکی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ کیس میں قانون سازی کا اختیار چیلنج ہے، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ کی منطق سمجھ سے باہر ہے، فل کورٹ کا فیصلہ اچھا اور تین رکنی بینچ کا برا ہوگا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ کی یہ دلیل ہے کہ رولز، فل کورٹ نے بنائے تو تشریح بھی وہی کرے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کا جواب خود پارلیمنٹ نے اپنے بنائے گئے قانون میں دے دیا ہے، عدالتی اصلاحات بل کے مطابق پانچ رکنی بینچ آئین کی تشریح کا مقدمہ سنے گا، یا تو آپ کہہ دیں کہ پارلیمنٹ نے قانون غلط بنایا ہے۔

پارلیمنٹ کہتی ہے 5 رکنی بینچ ہو، اٹارنی جنرل کہتے ہیں فل کورٹ ہو، جسٹس منیب اختر

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے قانون پر عمل درآمد سے روک رکھا ہے، اس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اگر حکم امتناع نہ ہوتا تو فل کورٹ کی استدعا کہاں جاتی، پارلیمنٹ کہتی ہے 5 رکنی بینچ ہو، اٹارنی جنرل کہتے ہیں فل کورٹ ہو، لگتا ہے حکومت کی گنتی کمزور پڑگئی ہے کہ یہاں کتنے ججز بیٹھے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ کی استدعا مناسب لگنے پر کی جاسکتی ہے، قانون میں کم سے کم پانچ ججز کا لکھا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ 5 ججز سے مطمئن ہے تو اٹارنی جنرل کیوں نہیں؟

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ قوانین کے خلاف درخواستیں عدالت معمول میں سنتی ہے، ہائی کورٹ بھی قوانین کے خلاف درخواستیں سنتی ہیں، کیا ہائی کورٹ میں بھی فل کورٹ کی استدعا کی گئی ہے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ نہیں ہے، 2012 میں بھی اس نوعیت کا مقدمہ سنا جاچکا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں 60 اور سندھ ہائی کورٹ میں 40 ججز سماعت کریں گے؟

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کی درخواست میں لکھا ہے کہ بینچ حکم امتناع میں اپنا ذہن دے چکا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی اصلاحات بل ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں، اس پر بات نہیں کروں گا، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تو ہائی کورٹس فل کورٹ بنانے کی پابند ہوں گی۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اگر صوبائی اسمبلی بھی اس نوعیت کا قانون بنادے تو کیا پوری ہائی کورٹ مقدمہ سنے گی؟

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا تمام 8 ججز فیصلہ کریں گے کہ فل کورٹ بنے گی؟

جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ کیا بینچ چیف جسٹس کو فل کورٹ بنانے کا حکم دے سکتا ہے؟

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست قابل سماعت ہونے پر بھی سوال ہے، ایسی درخواست انتظامی سطح پر دی جاسکتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز، چیف جسٹس سے فل کورٹ بنانے کی گزارش کرسکتے ہیں، جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیے کہ درخواست میں آپ چیف جسٹس کو حکم دینے کی استدعا کر رہے ہیں، کیا عدالت چیف جسٹس کو حکم دے سکتی ہے؟

جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کی تشکیل کی درخواست میں کی گئی استدعا پر تحفظات ہیں۔

جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ ایسی استدعا پر عدالت کس قسم کا حکم دے سکتی ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ماضی میں ایسی درخواست پر فل کورٹ تشکیل دی جاتی رہی ہے۔

درخواست میں کی گئی استدعا اچھے الفاظ میں نہیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست میں کی گئی استدعا اچھے الفاظ میں نہیں لیکن عدالت کو سمجھ آگئی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پھانسی کے مقدمے میں بینچ پر اعتراض کیا تھا، جج پر اعتراض ہوا اور 9 رکنی فل کورٹ نے مقدمہ سنا، جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دیے کہ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں اس میں وجوہات بھی دی گئی ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت کے چیف جسٹس انوارالحق نے اعتراض مسترد کیا، 9 رکنی فل کورٹ میں چیف جسٹس خود بھی شامل تھے، موجودہ درخواست میں کسی جج یا چیف جسٹس پر اعتراض نہیں۔

تعین کرنا ہے بینچ کن حالات میں فل کورٹ تشکیل دینے کا کہہ سکتا ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اعتراض ہو تو فیصلہ جج نے کرنا ہوتا ہے کہ وہ مقدمہ سنے یا نہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کرچکے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مستقبل کے لیے تعین کرنا ہے کہ بینچ کن حالات میں فل کورٹ تشکیل دینے کا کہہ سکتا ہے، عدالت کو اس حوالے سے مزید معاونت چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ صرف آئین کی تشریح کا نہیں ہے، آئینی ترامیم کیس میں عدالت نے فوجی عدالتیں درست قرار دی تھیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ موجودہ کیس آئینی ترامیم کا نہیں ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ مستقبل کے لیے ہوتا ہے، 20 سال بعد شاید زمینی حالات اور آئین مختلف ہو۔

وکیل مسلم لیگ (ن) کے دلائل

فل کورٹ کی تشکیل پر اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل کا آغاز کیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا مسلم لیگ (ن) کی درخواست پر نمبر لگ گیا؟ بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ درخواست آج ہی دی تھی نمبر لگ چکا ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل دیے کہ حکم امتناع کے ذریعے پہلی مرتبہ قانون پر عملدرآمد روکا گیا ہے، فل کورٹ کے لیے بینچ درخواستیں معمول میں دی جاتی ہیں، جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں بھی فل کورٹ بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کیس کا معاملہ چیف جسٹس کو بھجوایا گیا تھا، چیف جسٹس خود جسٹس فائز عیسیٰ کیس نہیں سن رہے تھے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ 7 رکنی بینچ نے فل کورٹ تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی، بعض اوقات بینچ خود بھی فل کورٹ کی تشکیل کے لیے فائل چیف جسٹس کو بھجواتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ افتخار چوہدری اور جسٹس فائز عیسیٰ کیسز صدارتی ریفرنس پر تھے، ججز پر الزام لگے تو ٹرائل سپریم کورٹ کا ہوتا ہے، معاملہ سنگین نوعیت کا ہونے پر ہی فل کورٹ بنا تھا، دونوں ججز کے خلاف ریفرنس سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیے، کسی اور مقدمے میں فل کورٹ کی مثال ہے تو دیں۔

بیرسٹر صلاح الدین نے دلیل دی کہ آئی جی جیل خانہ جات کیس میں بھی فل کورٹ تشکیل دی گئی تھی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ افتخار چوہدری کیس میں جج کو معزول کردیا گیا تھا، وہ ماسٹر آف روسٹر کا اختیار استعمال نہیں کرسکتے تھے، معزولی کے بعد قائم مقام چیف جسٹس اس اختیار کو استعمال کر رہے تھے، مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز، چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار کو اسٹرکچر نہیں کرتے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جو قانون پارلیمنٹ نے بنایا ہے اس میں پانچ رکنی بینچ کی بات کی گئی ہے، مسلم لیگ (ن) فل کورٹ کی استدعا کیسے کرسکتی ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ چیف جسٹس بینچز کی تشکیل کا حکم دیتے ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ روزانہ کی بنیاد پر مقدمات آتے ہیں، سائلین کے اعتراضات پر عدالت فیصلہ کرتی ہے، سائلین عدالت میں پیش ہو کر اپنا مؤقف پیش کرتے ہیں۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ جانبداری پر مبنی کئی فیصلے موجود ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کو پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ کل تک جمع کرانے کا حکم دے دیا اور بینچ میں شامل ایک رکن کی 3 ہفتوں تک عدم دستیابی کے سبب کیس کی مزید سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔

مسلم لیگ (ن) کی فل کورٹ کی درخواست

ادھر پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کی درخواست دائر کر دی۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایکٹ کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھانے والی درخواستوں کی سماعت جاری ہے، ‎ایکٹ کے مقاصد میں ایک بینچ تشکیل اور سماعت پر چیف جسٹس کے اختیارات ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آرٹیکل 184 تھری کے تحت مقدمات کی سماعت میں سینئر ترین ججز کو بھی کردار دینا ہے، قانون بننے سے پہلے ہی فوری داخل درخواستوں پر چیف جسٹس نے 8 رکنی بینچ بنایا۔

درخواست میں مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ چیف جسٹس نے 13 اپریل کو مقدمات کی سماعت کے لیے 8 رکنی بینچ پر خوشی محسوس کی، بینچ نے اسی دن ایک عبوری حکمِ امتناع سے مجوزہ ایکٹ پر عمل درآمد روک دیا۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ان درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے، معاملہ بڑی آئینی اہمیت کا ہے اور اس میں شامل نکات منفرد نوعیت کے ہیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایک طرف منتخب نمائندوں کے ذریعے قانون سازی کا حق اور اختیار استعمال کیا گیا ہے، دوسری طرف عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کی ضرورت ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس تناظر میں فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے آرٹیکل 175 ٹو، 191 اور 55 کی عدالتی تشریح ہونا ہے، پاکستانی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ ایکٹ کو نفاذ سے پہلے ہی عبوری حکم سے روک دیا گیا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ پیچیدہ مسائل اور قانون کے پائیدار حل کے لیے تمام ججز کی اجتماعی حکمت اور دانش ضروری ہے، خود چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات خاص طور پر بینچز کی تشکیل میں اشتراک شامل ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان حالات میں یہ مناسب نہیں کہ اس معاملے کی سماعت 8 رکنی بینچ کرے، سماعت بھی وہ بینچ کرے جس کا انتخاب اور سربراہی چیف جسٹس خود کر رہے ہوں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایسا تاثر خواہ بے بنیاد ہو کہ ’بینچ چیف جسٹس کے خیالات سے بنا ہے‘ اس سے گریز کرنا چاہیے۔

مسلم لیگ (ن) نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے کئی موجودہ اور ریٹائرڈ ججز نے بینچ کی تشکیل کے طریقہ کار پر تحفظات ظاہر کیے ہیں، یہ تحفظات بار ایسوسی ایشنز، بار کونسلز، سیاسی جماعتیں اور قانونی مبصرین بھی اٹھا رہے ہیں۔

پسِ منظر

خیال رہے کہ عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزر جانے پر از خود منظور ہوکر 21 اپریل کو قانون کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

رواں ماہ 2 مئی کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مذکورہ بل پر سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے اور جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے علیحدہ کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا تھا۔

4 مئی کو سپریم کورٹ نے بل پر سماعت کا 4 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کردیا تھا جس میں بینچ کی تشکیل پر کیے گئے اعتراض کا ذکر شامل نہیں تھا۔

تحریری حکم نامے کے مطابق مذکورہ بل کے ایکٹ بننے کے بعد داخل نئی درخواستوں پر بھی فریقین کو نوٹس جاری کردیے گئے ہیں، ان درخواستوں میں اہم آئینی نکات اٹھائے گئے ہیں جس پر فریقین 8 مئی تک جامع جوابات جمع کرائیں۔

6 مئی کو وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا تھا۔

علاوہ ازیں اسی روز وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں فل کورٹ تشکیل دینے کی متفرق درخواست بھی دائر کردی تھی جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ عدالت کے سامنے پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اختیار کا ہے، عدالت کے روبرو عدلیہ کی آزادی کے معاملہ کا ہے، عدالت کے سامنے معاملہ اداروں کی اختیارات کی تقسیم کے آئینی نقطہ کا بھی ہے، قانون کے خلاف درخواستیں اہم نوعیت کا آئینی معاملہ ہے۔

واضح رہے کہ بل کے خلاف تینوں درخواستیں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت ایڈووکیٹ محمد شفیع منیر، راجا عامر خان، چوہدری غلام حسین اور دیگر نے دائر کی تھیں۔

آئین کا آرٹیکل 184 (3) سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار کا تعین کرتا ہے اور اسے پاکستان کے شہریوں کے ’بنیادی حقوق میں سے کسی ایک کے نفاذ‘ کے حوالے سے ’عوامی اہمیت‘ کے سوال سے متعلق معاملات میں دائرہ اختیار سنبھالنے کے قابل بناتا ہے۔

سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 کے عنوان کے حامل اس بل کا مقصد چیف جسٹس کے دفتر کو انفرادی حیثیت میں از خود نوٹس لینے کے اختیارات سے محروم کرنا ہے۔

اسے ابتدائی طور پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کیا گیا اور صدر کی منظوری کے لیے بھیجا گیا، تاہم صدر نے یہ کہتے ہوئے اسے واپس بھیج دیا تھا کہ مجوزہ قانون ’پارلیمنٹ کی اہلیت سے باہر‘ ہے، اس بل کو بعد میں کچھ ترامیم کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا۔

تاہم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بل کی منظوری کے 3 روز بعد ہی ایک پیشگی اقدام کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق بل 2023 کی صدر مملکت کی جانب سے منظوری کے بعد یا دوسری صورت میں اس کے ایکٹ بننے کی صورت میں یہ مؤثر نہیں ہوگا، نہ ہی کسی بھی طرح سے اس پر عمل کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ کے حکم میں کہا گیا کہ ایکٹ بادی النظر میں عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، اس کے متن میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر تا حکم ثانی کسی بھی طریقے سے عمل درآمد نہیں ہوگا، سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت عدلیہ اور خصوصی طور پر سپریم کورٹ کی ادارہ جاتی آزادی کے لیے متفکر ہے۔

عدالت عظمیٰ کے اس پیشگی اقدام کو حکمراں اتحاد کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، وفاقی حکومت اور پاکستان بار کونسل نے بھی 8 رکنی بینچ پر اعتراض اٹھایا اور اس حکم کو ’متنازع اور یکطرفہ‘ قرار دیا۔

حکمران نے مخلوط حکومت کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو مسترد کر دیا تھا اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 19 اپریل کو ایک بار پھر بل کو منظوری دینے سے انکار کرتے ہوئے اسے پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیا تھا جس کے بعد یہ تکنیکی طور پر 21 اپریل کو پارلیمنٹ کا ایکٹ بن گیا تھا۔

قانون کی شقیں

بینچز کی تشکیل کے حوالے سے منظور کیے گئے اس قانون میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔

عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے قانون میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184 (3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

آرٹیکل 184 (3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔

بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔

قانون میں کہا گیا کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔

قانون کے خلاف درخواستیں

مذکورہ قانون کے خلاف دائر تینوں درخواستوں میں استدلال کیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 کا تصور، تیاری، توثیق اور اسے پاس کرنا بددیانتی پر مبنی عمل ہے لہٰذا وہ سپریم کورٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اسے قانونی اختیار کے بغیر قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیں۔

کیس میں وفاقی حکومت، سیکریٹری قانون کے ساتھ ساتھ وزیراعظم اور صدر کے پرنسپل سیکریٹریز کو نامزد کیا گیا ہے۔

درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ جب تک درخواست زیر التوا ہے، اس وقت تک بل کو معطل کیا جائے اور صدر ڈاکٹر عارف علوی کو بل منظور نہ کرنے کی ہدایت دی جائے تاکہ یہ پارلیمنٹ کا ایکٹ نہ بن سکے، ان کا موقف تھا کہ وفاقی حکومت ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی جو آئین کے تحت سپریم کورٹ کے کام یا اس کے یا اس کے ججوں بشمول چیف جسٹس کے اختیارات میں مداخلت یا ریگولیٹ کرنے کی کوشش کرے۔

درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ آئینی مینڈیٹ کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر آئینی اقدام انتہائی متنازع ہے اور وفاقی حکومت نے آئین پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی۔

درخواستوں میں کہا گیا کہ یہ بات ناقابل تصور ہے کہ سوموٹو سمیت آئینی اختیارات کے حوالے سے چیف جسٹس کے دفتر کو پارلیمنٹ کے ذریعے ریگولیٹ کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

درخواست گزاروں کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ ایسا قانون نہیں بنا سکتی جو آئین کی شقوں سے متصادم ہو اور استدلال کیا گیا کہ اگر کسی بھی اپیل کی قانون سازی کے ذریعے اجازت دی جاسکتی ہے تو یہ صرف آئین میں ترمیم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں