سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ2023 پر سماعت کیلئے فل کورٹ بنانے کی استدعا

اپ ڈیٹ 06 مئ 2023
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف4 درخواستیں دائر کی گئیں تھیں—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف4 درخواستیں دائر کی گئیں تھیں—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

وفاقی حکومت نے عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 سے متعلق زیر سماعت کیس میں فل کورٹ بنانے کی استدعا کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزرنے پر از خود منظور ہوکر قانون کی شکل اختیار کرگیا تھا جب کہ اس کی منظوری سے قبل ہی ایک پیشگی اقدام کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ بل کی صدر مملکت کی جانب سے منظوری کے بعد یا دوسری صورت میں اس کے ایکٹ بننے کی صورت میں یہ مؤثر نہیں ہوگا، نہ ہی کسی بھی طرح سے اس پر عمل کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف4 درخواستیں دائر کی گئیں تھیں، درخواستوں میں پارلیمنٹ سے منظور ترامیمی ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی جس پر سماعت کے لیے چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

آج وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں فل کورٹ تشکیل دینے کی متفرق درخواست دائر کی جس میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ عدالت کے سامنے پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اختیار کا ہے، عدالت کے روبرو عدلیہ کی آزادی کے معاملہ کا ہے، عدالت کے سامنے معاملہ اداروں کی اختیارات کی تقسیم کے آئینی نقطہ کا بھی ہے، قانون کیخلاف درخواستیں اہم نوعیت کا آئینی معاملہ ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ماضی آئینی نوعیت کے ایسے مقدمات کیلئے فل کورٹ بینچ تشکیل دئیے گئے، اس مقدمہ میں بھی آئینی نوعیت کے سوالات اٹھائے گئے، فل کورٹ استدعا کا مقصد کسی جج کے شامل کرانا مقصد نہیں، سپریم کورٹ کے تمام ججز پر وفاق کا اعتبار ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ مقدمہ میں سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دے۔

حکومت کی سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا

دوسری جانب اس سے قبل آج ہی وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا، وفاقی حکومت کی جانب سے جواب ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے جمع کرایا۔

اس میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ قانون کے خلاف درخواستیں انصاف کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہے، درخواست گزاروں کی قانون کو چیلنج کرنے نیت صاف نہیں، پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر کوئی قدغن نہیں، چیف جسٹس کے ماسٹر آف روسٹر کے تصور کو قانونی تحفظ حاصل نہیں۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ قانون سے چیف جسٹس کا آئین کے آرٹیکل 184/3 کا اختیار ریگولیٹ ہوگا، قانون سے عدلیہ کے اختیارات میں کمی نہیں ہوگی، قانون میں آرٹیکل 184/3 کے اختیار میں اپیل کا حق دیا گیا ہے، آئین کا آرٹیکل10 اے فئیر ٹرائل کا حق دیتا ہے، آرٹیکل 184/3میں نظر ثانی کا اختیار محدود ہے، فیئر ٹرائل کیلئے اپیل کا حق ضروری ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سماعت کے سپریم کورٹ کے حکم نامے کے مطابق عدالت کو بتایا گیا کہ سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر بل کا گزٹ نوٹی فکیشن جاری کیا جاچکا ہے، تاہم عدالت نے کہا کہ بل پر عمل درآمد روکنے کا حکم نامہ تاحکم ثانی برقرار ہے۔

عدالت نے سیاسی جماعتوں سمیت تمام فریقین کو تحریری جوابات جمع کرانے کی ہدایت کی تھی اور سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر بل کی منظوری کے وقت قومی اسمبلی اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی بحث کا مکمل ریکارڈ بھی طلب کیا تھا۔

تحریری حکم نامے میں پاکستان بار کونسل کی جانب سے 8 رکنی بینچ پر اٹھائے گئے اعتراض کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا تھا جب کہ پاکستان بار کونسل نے فل کورٹ بینچ تشکیل دینے اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی بینچ میں موجودگی پر اعتراض اٹھایا تھا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ

بینچز کی تشکیل کے حوالے سے منظور کیے گئے اس قانون میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔

عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے قانون میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184 (3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ دوم کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

آرٹیکل 184 (3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔

بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔

قانون میں کہا گیا کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔

قانون کے خلاف درخواستیں

مذکورہ قانون کے خلاف دائر تینوں درخواستوں میں استدلال کیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 کا تصور، تیاری، توثیق اور اسے پاس کرنا بددیانتی پر مبنی عمل ہے، لہٰٰذا وہ سپریم کورٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اسے قانونی اختیار کے بغیر قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیں۔

کیس میں وفاقی حکومت، سیکریٹری قانون کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم اور صدر کے پرنسپل سیکریٹریز کو نامزد کیا گیا ہے۔

درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ جب تک درخواست زیر التوا ہے، اس وقت تک بل کو معطل کیا جائے اور صدر ڈاکٹر عارف علوی کو بل منظور نہ کرنے کی ہدایت دی جائے تاکہ یہ پارلیمنٹ کا ایکٹ نہ بن سکے، ان کا مؤقف تھا کہ وفاقی حکومت ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی جو آئین کے تحت سپریم کورٹ کے کام یا اس کے یا اس کے ججز بشمول چیف جسٹس کے اختیارات میں مداخلت یا ریگولیٹ کرنے کی کوشش کرے۔

درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ آئینی مینڈیٹ کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر آئینی اقدام انتہائی متنازع ہے اور وفاقی حکومت نے آئین پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی۔

درخواستوں میں کہا گیا کہ یہ بات ناقابل تصور ہے کہ سوموٹو سمیت آئینی اختیارات کے حوالے سے چیف جسٹس کے دفتر کو پارلیمنٹ کے ذریعے ریگولیٹ کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

درخواست گزاروں کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ ایسا قانون نہیں بنا سکتی جو آئین کی شقوں سے متصادم ہو اور استدلال کیا گیا کہ اگر کسی بھی اپیل کی قانون سازی کے ذریعے اجازت دی جاسکتی ہے تو یہ صرف آئین میں ترمیم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں