کس کے کہنے پر فوج کے خلاف مہم چلائی؟ شہباز شریف کا عمران خان سے سوال

اپ ڈیٹ 10 مئ 2023
شہباز شریف نے کہا کہ کیا آپ جیسے ایسے مذموم اہداف اور عزائم رکھنے والوں کی موجودگی میں ہمیں کسی دشمن کی ضرورت ہے؟— فائل فوٹو/عمران خان انسٹاگرام/اے ایف پی
شہباز شریف نے کہا کہ کیا آپ جیسے ایسے مذموم اہداف اور عزائم رکھنے والوں کی موجودگی میں ہمیں کسی دشمن کی ضرورت ہے؟— فائل فوٹو/عمران خان انسٹاگرام/اے ایف پی

وزیر اعظم شہباز شریف نے سابق وزیر اعظم عمران خان سے چار جوابی سوال پوچھتے ہوئے کہا ہے کہ اداروں پر مذموم حملے اور غلط بیانیاں آپ کی سیاست کا تعارف ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی بتائیں کہ کس کے کہنے پر فوج کے خلاف مہم چلائی؟

واضح رہے کہ شہباز شریف کی جانب سے یہ سوالات عمران خان کے گزشتہ روز دیے گئے اس بیان کے جواب میں سامنے آئے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کیا ایک ایسا شخص جو گزشتہ چند ماہ کے دوران 2 قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنا، کے طور پر میں شہباز شریف سے درج ذیل سوالات پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ کیا بطور پاکستانی شہری مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں ان لوگوں کو نامزد کروں جو میرے خیال کے مطابق مجھ پر قاتلانہ حملے کے ذمہ دار تھے؟

عمران خان نے وزیراعظم کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ آئی ایس آئی کے لوگوں کی وہاں موجودگی کا مقصد کیا تھا اور ان کا جوڈیشل کمپلیکس میں کام ہی کیا تھا؟ اگر شہباز شریف ان سوالات کے سچ پر مبنی جوابات دے سکیں تو ان سب سے ایک ہی طاقتور شخص اور اس کے ساتھیوں کا سراغ ملے گا جو سب قانون سے بالاتر ہیں۔

آج اپنے ٹوئٹ میں سابق وزیراعظم پر تنقید کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ مجھے کوئی شک نہیں کہ سفید جھوٹ، غلط بیانیاں، یوٹرنز اور اداروں پر مذموم حملے آپ کی سیاست کا تعارف ہے، آپ کا رویہ عدلیہ کو اپنی خواہشات کے حق میں جھکانا اور قانون مجھ پر لاگو نہیں ہوتا جیسا ہے، گزشتہ چند سال کے ٹھوس حقائق سے جو کچھ ثابت ہوا ہے، اسی کی بنیاد پر آپ کے بارے میں اپنی ٹوئٹ میں، میں نے لکھا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں آپ سے یہ جوابی سوال پوچھتا ہوں کہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد بار بار پاکستان آرمی کو بطور ادارہ بدنام کرنا آپ کی سیاست کا طریقہ کار رہا ہے، وزیرآباد واقعے سے بھی پہلے سے کیا آپ آرمی، انٹیلی جنس اداروں اور ان کی قیادت پر مسلسل کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ جاری نہیں رکھے ہوئے؟

شہباز شریف نے کہا کہ میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ ہر روز دھمکانے، بے بنیاد الزام لگانے کے سوا آپ نے کون سا قانونی طریقہ کار اپنایا؟

وزیراعظم نے کہا کہ آپ نے وفاقی حکومت کی طرف سے کی گئی تعاون کی پیشکش ٹھکرا دی اور قانونی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا، آپ کو کبھی بھی سچائی کی کھوج میں کوئی دلچسپی تھی ہی نہیں بلکہ قابل مذمت واقعے کو آپ نے اپنے گھٹیا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔

شہباز شریف نے تیسرا سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ ہیلی کاپٹر حادثہ کے بعد شہداء اور مسلح افواج کے خلاف سوشل میڈیا پر غلیظ مہم کس کی ایماء پر چلائی؟ کس جماعت کے ٹرول بریگیڈ نے شہدا کا مذاق اڑایا جو ہماری سیاست میں ناقابل تصور اور کلچر میں ایک نئی کم ظرفی کا مظہر تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ کیا آپ جیسے ایسے مذموم اہداف اور عزائم رکھنے والوں کی موجودگی میں ہمیں کسی دشمن کی ضرورت ہے؟ وزیراعظم نے چوتھا سوال کیا کہ سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کو کس نے استعمال کیا؟

انہوں نے کہا کہ اپنی سیاسی سرگرمیوں میں مذہبی اصطلاحات کو کس نے متعارف کرایا؟

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح آپ نے نہایت چالاکی اور ذاتی سیاسی مقاصد کی خاطر اپنے حامیوں کے ذریعے سیاسی مخالفین کو تشدد کے خطرات سے دوچار کیا؟

شہباز شریف نے پوچھا کہ کیا آپ کے پارٹی راہنمائوں نے مسجد نبویﷺ کے تقدس و احترام کو پس پشت ڈالتے ہوئے خاتون وزیر سمیت سرکاری وفد کے لوگوں کو ہراساں کرنے اور بدسلوکی کا نشانہ بنانے کی افسوسناک حرکت کی تاویلیں، دلیلیں اور جواز نہیں گھڑے تھے؟

وزیراعظم نے کہا کہ یہ امر روز روشن کی طرح عیاں رہنا چاہیے کہ سابق وزیراعظم کے طور پر کرپشن پر جاری ٹرائل کا سامنا کرتے ہوئے آپ چاہتے ہیں کہ قانونی و سیاسی نظام کو درہم برہم کر دیا جائے، آپ کی دانست میں پاکستان جنگل بن چکا ہے تو میرا آپ کو مشورہ ہوگا کہ وہاں نہ جائیں کیونکہ حقائق اکثر تلخ اور تباہ کن ہوتے ہیں، اسے کسی اور دن کے لئے رکھ چھوڑتے ہیں۔

یاد رہے کہ اس سے قبل گزشتہ ہفتے وزیراعظم شہباز شریف اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے عمران خان کی جانب سے فوجی افسران پر بے بنیاد الزامات کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں مزید برداشت نہیں کیا جائے گا جب کہ اس کے ایک روز بعد چیئرمین پی ٹی آئی نے شہباز شریف کو مخاطب کرکے سوال اٹھایا تھا کہ کیا فوجی افسران قانون سے بالاتر ہیں۔

گزشتہ روز عمران خان کے بیانات پر ترجمان پاک فوج نے کہا تھا چیئرمین پی ٹی آئی نے بغیر کسی ثبوت کے ایک حاضر سروس سینئر فوجی افسر پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں جو من گھڑت، بدنیتی پر مبنی، افسوسناک، قابل مذمت اور ناقابل قبول ہیں۔

آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ گزشتہ ایک سال سے یہ وطیرہ بن گیا ہے جس میں فوجی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اشتعال انگیز اور سنسنی خیز پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جاتا ہے، عمران خان نے بغیر کسی ثبوت کے ایک حاضر سروس سینئر فوجی افسر پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہم متعلقہ سیاسی رہنما سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قانونی راستہ اختیار کریں اور جھوٹے الزامات لگانا بند کریں، ادارہ واضح طور پر جھوٹے، غلط بیانات اور پروپیگنڈے کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

یاد رہے کہ عمران خان نے آج اپنی گرفتاری سے قبل ایک مرتبہ پھر اپنی توپوں کا رخ پاک فوج کی جانب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عزت صرف ایک ادارے کی نہیں ہر شہری کی ہونی چاہیے اور جو ادارہ اپنی کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے وہ مضبوط ہوتا ہے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ ’ایک انٹیلی جنس افسر کا نام لے دیا، جس نے 2 مرتبہ مجھے قتل کرنے کی کوشش کی، آئی ایس پی آر صاحب! ذرا میری غور سے بات سنیں، عزت صرف ایک ادارے کی نہیں ہے، عزت قوم میں ہر شہری کی ہونی چاہیے‘۔

ایک مرتبہ پھر اپنے الزامات دہراتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’اس آدمی نے 2 مرتبہ مجھے قتل کرنے کی کوشش کی اور جب بھی تحقیقات ہوں گی میں یہ ثابت کروں گا یہ وہ آدمی تھا، اور اس کے ساتھ پورا ٹولہ ہے اور اس کے ساتھ کون ہیں وہ بھی آج کے سوشل میڈیا کے زمانے میں سب کو پتا ہے‘۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال وزیر آباد میں پی ٹی آئی سربراہ پر قاتلانہ حملے کے بعد عمران خان نے وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور ایک سینئر انٹیلی جنس اہلکار کو ان کے قتل کی کوشش کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور ان سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔

اس کے بعد سے چیئرمین پی ٹی آئی سمیت کئی پارٹی رہنماؤں نے اس بات کو دہرایا ہے کہ وزیر آباد قاتلانہ حملہ عمران خان کو ختم کرنے کے لیے تین شوٹرز کے ذریعے منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔

پنجاب حکومت کی جانب سے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے مبینہ طور پر عمران خان کے ان دعوؤں سے اتفاق کیا تھا کہ حملہ تین مختلف مقامات سے کیا گیا، دو بار تشکیل پانے والی اس جے آئی ٹی کی سربراہی سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کر رہے تھے۔

تاہم جنوری کے شروع میں حکومت نے حملے کی تحقیقات کے لیے ایک نئی ٹیم تشکیل دی جس کو پی ٹی آئی نے مسترد کر دیا تھا۔

گزشتہ ہفتے کے روز اعلیٰ عدلیہ اور حکومت کے درمیان کشیدگی کے درمیان چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال سے اظہار یکجہتی کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے مختلف شہروں میں نکالی گئی احتجاجی ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور ایک حاضر سروس اعلیٰ فوجی افسر پر سخت تنقید کی تھی۔

عمران خان نے ایک حاضر سروس اعلیٰ فوجی افسر کا نام لے کر الزام لگایا تھا کہ مجھے کچھ ہوا تو اس شخص کا نام یاد رکھنا جس نے مجھے پہلے بھی دو بار مارنے کی کوشش کی۔

تبصرے (0) بند ہیں