اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی گرفتاری قانون کے مطابق قرار دے دی

اپ ڈیٹ 10 مئ 2023
—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: رائٹرز
— فوٹو: رائٹرز

سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں نیب کے حکم پر رینجرز کی جانب سے گرفتار کیے جانے کے چند گھنٹے بعداسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی احاطہ عدالت سے گرفتاری کو قانون کے مطابق قرار دےدیا ہے ۔

عمران خان 7 مقدمات میں ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے تھے جہاں سے رینجرز نے ان کو حراست میں لے لیا تھا جب کہ عدالتی احاطے سے گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے اسلام اْباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر پی ٹی آئی سربراہ کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا تو انہیں رہا کرنا پڑے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے عمران خان اور ان کی اہلیہ پر بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سے ساز باز کر کے بحریہ ٹاؤن کے بدلے القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کی زمین لینے کا الزام عائد کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے جس کا 50 ارب روپیہ ایڈجسٹ کیا گیا، اس نے 458 کنال کی جگہ کا معاہدہ کیا جس کی مالیت کاغذات میں 93 کروڑ روپے جبکہ اصل قیمت پانچ سے 10 گنا زیادہ ہے اور یہ زمین بحریہ ٹاؤن نے القادر ٹرسٹ کے نام پر منتقل کی، اس زمین کو بحریہ ٹاؤن نے عطیہ کیا اور اس میں ایک طرف دستخط بحریہ ٹاؤن کے عطیہ کنندہ کے ہیں اور دوسری جانب سابق خاتون اول بشریٰ خان کے ہیں، یہ قیمتی اراضی القادر ٹرسٹ کے نام پر منتقل کی گئی جس کے دو ہی ٹرسٹی ہیں جس میں پہلی بشریٰ خان ہیں اور دوسرے سابق وزیر اعظم ہیں۔

عمران خان آج (9 مئی کو) 7 مقدمات میں ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے تھے جہاں سے رینجرز نے دوپہر تقریباً سوا دو بجے ان کو حراست میں لے لیا۔


اہم نکات:

  • عمران خان متعدد نوٹسز جاری ہونے کے باوجود عدالت میں پیش نہیں ہوئے، وزیر داخلہ
  • گرفتاری کے دوران عمران خان کے سر اور زخمی ٹانگ پر ’تشدد‘ کیا گیا، وکیل پی ٹی آئی
  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو قانون کے مطابق قرار دے دیا۔
  • شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں 6رکنی کمیٹی آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی، اسد عمر
  • پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کے خلاف کئی شہروں میں مظاہرے

اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری بیان میں تصدیق کی گئی کہ عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔

آئی جی اسلام آباد کے مطابق حالات معمول کے مطابق ہیں، دفعہ 144 نافذ العمل ہے، خلاف ورزی کی صورت میں کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

عمران خان کے وارنٹ گرفتاری کی دستیاب کاپی کے مطابق نیب نے عمران خان کو نیب آرڈیننس 1999 کے سکیشن 9 اے کے تحت گرفتار کیا، نیب نے 34 اے، 18 ای، 24 اے کے تحت کارروائی عمل میں لاتے ہوئے عمران خان کو گرفتار کیا۔

نیب اعلامیے کے مطابق عمران خان پر کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز میں ملوث ہونےکا الزام ہے، گرفتاری کے بعد ان کو متعلقہ عدالت میں پیش کیا جائےگا۔

نیب راولپنڈی سے جاری بیان کے مطابق یہ مقدمہ القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے غیرقانونی حصول اور تعمیرات سے متعلق ہے جس میں نیشنل کرائم ایجنسی برطانیہ کے ذریعے بنیادی رقم 190 ملین پاؤنڈز کی وصولی میں غیرقانونی فائدہ شامل ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ نیب راولپنڈی کی جانب سے کی گئی انکوائری اور انویسٹی گیشن کے قانونی طریقہ کار کو پورا کرنے کے بعد عمران خان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے، انکوائری/انویسٹی گیشن کے عمل کے دوران سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ کو متعدد کال اپ نوٹس جاری کیے گئے کیونکہ دونوں القادر ٹرسٹ کے ٹرسٹیز تھے۔

بیان میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم یا ان کی اہلیہ کی طرف سے کسی بھی کال اپ نوٹس کا جواب نہیں دیا گیا، سابق معاون خصوصی برائے وزیراعظم شہزاد اکبر مذکورہ کیس میں ملوث کلیدی کردار ہیں۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وہ اور سابق وزیراعظم نے تصفیہ معاہدے سے متعلق حقائق/دستاویزات کو چھپا کر اپنی کابینہ کو گمراہ کیا، 190 ملین برطانوی پاؤنڈز رقم تصفیہ/معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور قومی خزانے میں جمع ہونی تھی، اس کے برعکس رقم کو بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں 460 ارب روپے کی ادائیگی کے معاملے میں ایڈجسٹ کیا گیا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ سابق وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی مفرور شہزاد اکبر کے خلاف ریڈ نوٹس جاری کرنے کی کارروائی پہلے ہی شروع کی جا چکی ہے۔

عمران خان کو عدالتی احاطے سے گرفتار کرنے پر سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کے نوٹس

دریں اثنا چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے عمران خان کی گرفتاری کے فروری بعد ہی 15 منٹ میں آئی جی اسلام آباد پولیس کو طلب کرلیا تھا۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد، ایڈیشنل اٹارنی جنرل 15 منٹ میں پیش ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ نے کیا کیا ہے؟ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال ہے، میں تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہوں، اگر 15 منٹ میں پیش نہ ہوئے تو وزیراعظم کو طلب کرلوں گا، پیش ہو کر بتائیں کہ کیوں کیا، کس مقدمے میں کیا؟

مجھے میڈیا کے ذریعے پتہ چلا کہ عمران خان کو گرفتار کیا گیا، آئی جی اسلام آباد

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہونے سے قبل آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے۔

آئی جی اسلام آباد، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کے علاوہ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث، سلمان صفدر، نعیم پنجوتھا بھی عدالت میں موجود رہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی صاحب آگئے ہیں، سیکریٹری داخلہ راستے میں ہیں، جس پر چیف جسٹس نے بتایا کہ میں نے 15 منٹ کا کہا تھا، اب 45 منٹ سے زائد گزر چکے ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق کا شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں نے جان بوجھ کر مناسب وقت دیا تھا، ابھی تک کیوں نہیں آئے؟ وزیر کو طلب کروں؟

آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ مجھے میڈیا کے ذریعے پتا چلا کہ عمران خان کو گرفتار کیا گیا۔

آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان نے بتایا کہ عمران خان کو نیب نے کرپٹ پریکٹس کے کیس میں گرفتار کیا ہے۔

آئی جی اسلام آباد نے نیب وارنٹ کی کاپی عدالت میں پیش کی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جتنا میں نے دیکھا، اسٹاف نے بتایا، نیب نے تو گرفتار نہیں کیا، اگر تو قانون کے مطابق نہیں تو میں آرڈر جاری کروں گا۔

عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر روسٹرم پر آگئے، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کی کوشش تھی کہ بائیو میٹرک کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے عمران خان کو گرفتار کریں، رینجرز نے شیشے توڑے، ہم پر پیپر اسپرے کیے۔

بیرسٹر گوہر نے مزید بتایا کہ انہوں نے راڈ خان صاحب کے سر پر مارا، انہوں نے دونوں ہاتھ سر پر رکھے ہوئے تھے، میں اس حوالے سے بیان حلفی دینے کے لیے تیار ہوں، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، عمران خان کی زخمی ٹانگ پر بھی تشدد کیا گیا۔

وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ انہوں نے عدالتی آزادی، بنیادی حقوق کی پامالی کی، انصاف تک رسائی ہر کسی کا بنیادی حق ہے، آج کا واقعہ عدالتی آزادی پر براہ راست حملہ ہے، قانون کہتا ہے انکوائری کے دوران نیب گرفتار نہیں کر سکتا، نیب تحقیقات کے دوران بھی مخصوص حالات میں گرفتار کرسکتا ہے، عمران خان بائیو میٹرک کرانے کے پراسس میں تھے۔

وکیل علی بخاری نے بتایا کہ میں بائیو میٹرک والے کمرے میں موجود تھا، خان صاحب کی بائیو میٹرک ہورہی تھی، 5 پولیس والے بھی موجود تھے، رینجرز نے کہا دروازہ کھولو، پولیس نے انکار کردیا کہ نہیں کھولتے، رینجرز شیشے توڑ کر داخل ہوئے، خوب توڑ پھوڑ کی۔

علی بخاری نے مزید کہا کہ رینجرز نے جو بھی کمرے میں موجود تھا سب پر تشدد کیا، پولیس والوں کی وردیاں دیکھ لیں بلا کر۔

معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فل کورٹ سنے، وکیل فیصل چوہدری

عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ پہلی درخواست یہ ہے کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فل کورٹ سنے، آپ کی عدالت پر حملہ ہوا، استدعا ہے کہ عدالت اپنے وقار کو بحال کرے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ میں نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، میرے صبر کا امتحان مت لیں، چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ نیب اس طریقے سے بھی گرفتار کرتی ہے؟ کیا یہ عدالتی آزادی پر حملہ نہیں؟ کیا یہ گرفتاری غیر قانونی ہے؟

وکلا پر حملہ، ادارے اور میرے اوپر حملہ، کیا میں ایسے ہی جانے دوں؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے سامنے ہے، وکلا کے سر پھٹے ہوئے ہیں، ان کے اوپر حملہ، اس ادارے کے اوپر حملہ، میرے اوپر حملہ، کیا میں ایسے ہی جانے دوں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وارنٹ کی ضرور تکمیل ہو گئی ہو گی لیکن یہ سب اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں ہوا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل دوگل صاحب نے کہا ہمارا تعلق نہیں، ایجنسی آپ کی استعمال ہوئی، تعلق بن جاتا ہے۔

اسی دوران ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے۔

وکیل نعیم پنجوتھا نے عمران خان کو اسی وقت عدالت میں پیش کرنے کے احکامات دینے کی استدعا کی، خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ میں 45 سال سے وکالت کررہا ہوں، کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ حملہ کرکے گرفتار کیا ہو۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ کیا پارکنگ، بار رووم کو کورٹ سمجھا جائے گا؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے اس بیان پر کمرہ عدالت میں شیم شیم کے نعرے لگائے گئے۔

آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ آج جو ہوا اس کا تقاضا ہے کہ اس تمام عمل کو ریورس کیا جائے، درخواست یہ ہے کہ ابھی یہ ساری بات پتہ چلی ہے، مجھے یہ بھی نہیں پتا کہ یہ واقعہ کہاں ہوا، اس کمرے میں ہوا یا اُس کمرے میں، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ وکلا نے سب تو بتا دیا ہے اور کیا چاہیے؟

آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ اگر آپ مجھے اجازت دیں کہ میں معاملے کو دیکھ سکوں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میرے سامنے میرے بھائی میرے ساتھ اس حالت میں کھڑے ہیں، کون ذمہ دار ہے؟ جو توڑ پھوڑ ہوئی، شیشے ٹوٹے، عمارتیں اہم نہیں، یہ وقار نہیں اہم ہے، بات سسٹم کی ہے، سسٹم کے بغیر کیسے چلیں گے؟ ان معاملات پر بتا دیں، ورنہ میں آرڈر کر دیتا ہوں۔

خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ ہم آپ کے سامنے پیش ہوتے ہیں، آج نہیں تو کل گرفتار ہوجائیں گے، مگر ڈیو پروسیس کے تحت، یہ تو کوئی ڈیو پروسیس نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون کی حکمرانی کا یہ معاملہ ہے، اس کا شخصیات سے لینا دینا نہیں۔

عدالت نے ڈی جی نیب راولپنڈی، پراسیکیوٹر جنرل نیب کو آدھے گھنٹے میں طلب کرلیا اور سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا۔

بعد ازاں ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان بیگ، پراسیکیوٹر جنرل نیب، ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچ گئے جس کے بعد چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں سماعت دوبارہ شروع ہوگئی۔

چیف جسٹس نے ڈی جی نیب سے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب نے وارنٹ کی کاپی دکھائی تھی کیا وہ جاری کیا گیا ہے؟ سردار مظفر نے کہا کہ بالکل وارنٹ جاری ہوا ہے، یکم مئی کا وارنٹ ہے، ہم نے وزارت داخلہ کو وارنٹ کی تعمیل کیلئے درخواست کی تھی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وارنٹ کی تعمیل کے دوران نیب سے کوئی موجود تھا؟ سردار مظفر نے کہا کہ تفتیشی افسر بیلا روڈ پر پہنچا تھا، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ وکلا پر تشدد کیا گیا، سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا، میرا کنسرن عدالت کی عزت و تکریم ہے، یہ جو بھی ہوا ہے عدالت کے اندر سے ہی ہوا یے۔

چیف جسٹس نےکہا کہ توڑ پھوڑ بعد کا معاملہ ہے، وکلا اور عملے پر تشدد کا معاملہ پہلے ہے، وارنٹ آپ نے ایشو کیے، مانتے ہیں، عام طور پر وارنٹ کی تعمیل کا کیا طریقہ کار ہوتا ہے؟

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی وارنٹ کی تعمیل سے متعلق رولز پڑھ رہے ہیں، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آج جو ہوا ہے کیا وہ قانونی تھا یا غیر قانونی، میرا بس یہ کنسرن ہے، کیا وارنٹ کی تعمیل قانونی تھی یا غیر قانونی، واحد معاملہ یہی ہے، وکلا اور عملے پر تشدد پر میں بعد میں آتا ہوں، کیا عمران خان کی گرفتاری قانونی ہے یا غیر قانونی؟ مانتا ہوں کہ وارنٹ موجود تھے، لیکن اس کی تعمیل کے طریقہ کار سے غرض ہے۔

وکلا نے کہا کہ ہائیکورٹ کے تقدس کا احترام ہر ادارے، ہر فرد پر لازم ہے، آج ہم نے دیکھا کہ انہوں نے وکلا پر اسپرے کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ اس کو روکنا ہوگا، پہلے میں گرفتاری سے متعلق معاملہ دیکھنا ہے، تمام وکلا کی شکایات بجا ہیں لیکن پہلے گرفتاری کے معاملے کو دیکھنا ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ اپریل کو اخبار نے خبر چھاپی کہ نیب نے انکوائری انویسٹیگیشن میں تبدیل کردی ہے، نیب پر لازم ہے کہ وہ مجھے اس کی کاپی فراہم کرے، میں نے نیب کو خط لکھا کہ مجھے یہ اخبار سے پتا چلا ہے، مہربانی کریں مجھے انکوائری کی کاپی فراہم کریں۔

خواجہ حارث نے ریکارڈ عدالت میں پیش کردیا، خواجہ حارث نے کہا کہ ریکارڈ سے بدنیتی صاف نظر آرہی ہے، چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ وارنٹ صرف انویسٹی گیشن میں منتقل ہونے کے بعد جاری کیا جاسکتا ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ بالکل میرا کیس ہی یہی ہے کہ انویسٹی گیشن میں منتقل ہونے اور متعدد نوٹسز کے جواب نہ ملنے پر جاری ہوسکتا ہے، خواجہ صاحب یہ جو نیب قانون میں ترمیم ہے یہ اچھی ہے؟

چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ آپ نے فواد چوہدری یا کسی دوسرے کےخلاف تو وارنٹ جاری نہیں کر رکھے؟ بتا دیں، یہ نہ ہو کہ یہ یہاں سے باہر نکلیں اور آپ تعمیل کرادیں، میں وکیلوں میں سے ہوں، اور وکیلوں میں ہی مجھے جانا ہے، مجھے عدالت کی عزت و تکریم اور میری کمیونٹی کو دیکھنا ہے۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی گرفتاری سے متعلق معاملے پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے مناسب آرڈر جاری کریں گے۔

بعد ازاں محفوظ فیصلہ جاری کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو قانون کے مطابق قرار دے دیا۔

عدالت عالیہ نے اپنے مختصر حکم نامے میں عمران خان کو عدالتی احاطے سے گرفتار کرنے پر رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کردیے۔

عمران خان پر تشدد کا دعویٰ

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے کہا ہے کہ عمران خان کو گرفتاری کے وقت بری طرح دھکیلا گیا ہے جو پہلے ہی زخمی ہیں۔

پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل بیرسٹر گوہر نے بھی دعویٰ کیا کہ رینجرز نے عمران خان کے سر اور ٹانگ پر تشدد کیا۔

ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان کو گرفتار کرنے والے سب رینجرز اہلکار تھے، عمران خان کی زخمی ٹانگ پر تشدد کیا گیا۔

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ پر رینجرز نے قبضہ کر لیا ہے، وکلا کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، عمران خان کی گاڑی کے گرد گھیرا ڈال لیا گیا ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ بیان میں پی ٹی آئی نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر چیئرمین عمران خان کے وکیل کو بری طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

پی ٹی آئی نے کہا کہ یہ ہماری جمہوریت اور ملک کے لیے سیاہ دن ہے۔

پی ٹی آئی رہنما مسرت چیمہ نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’یہ اس وقت عمران خان پر بہت زیادہ تشدد کر رہے ہیں، خان صاحب کو مار رہے ہیں، انہوں نے خان صاحب کے ساتھ کچھ کردیا ہے۔‘

تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر نے گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’آج عالم اسلام کے لیڈر کو گرفتار کیا گیا اور ان پر دوران گرفتاری تشدد کرنے کی اطلاعات آرہی ہیں، یہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے، وہ عالم اسلام کا نڈر لیڈر ہے اور اس نے کوئی گناہ نہیں کیا، لوگوں کے لاکھوں کروڑوں اربوں روپے نہیں لوٹے، وہ دوڑ کر کسی اور ملک میں جاکر نہیں بیٹھ گیا‘۔

حماد اظہر نے کارکنوں اور عوام سے مطالبہ کیا کہ گھر سے باہر نکلیں کیونکہ اگر آج ہم باہر نہ نکلے تو یہ ملک ہمیشہ کے لیے ان چوروں اور ڈاکوؤں کے حوالے کردیا جائے گا اور دوبارہ یہاں کوئی سر اٹھا کر نہیں جی سکے گا۔

دوسری جانب وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے پی ٹی آئی رہنماؤں کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان پر کوئی تشدد نہیں کیا گیا۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ نوٹسز کے باوجود عمران پیش نہیں ہوئے، قومی خزانے کو نقصان پہنچانے پر نیب کی جانب سے گرفتاری کی گئی ہے، اُن پر کسی قسم کا کوئی تشدد نہیں کیا گیا۔

عمران خان کا وارنٹ گرفتاری یکم مئی کو جاری کیا گیا تھا، رہنما پی ٹی آئی

پی ٹی آئی رہنما اظہر صدیق نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کا وارنٹ گرفتاری یکم مئی کو جاری کیا گیا تھا۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ نیب عدالت سے اجازت کے بغیر عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے، چیئرمین نیب کا وارنٹ گرفتاری جاری کرنا اختیارات سے تجاوز ہے۔

انہوں نے لکھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری توہین عدالت ہے، چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نذیر احمد نے یکم مئی (چھٹی کے روز) عمران خان کا وارنٹ گرفتاری جاری کیا۔

تحریک انصاف کا ملک بھر میں احتجاج کا اعلان

عمران خان کی گرفتاری کے خلاف تحریک انصاف کے اعلان پر ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج شروع کر دیا گیا ہے۔

لاہور میں سینیٹر اعجاز احمد چوہدری نے کارکنان کے ہمراہ اکبر چوک، مین پیکو روڑ ، ٹاؤن شپ، مین کینال روڑ اور فیصل ٹاؤن بند کر دیا۔

پی ٹی آئی کارکنان نے ٹائر جلائے اور ’امپورٹڈ حکومت‘ کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

کراچی میں ضلع ساوتھ میں کراچی پریس کلب، تین تلوار کلفٹن، ایم اے جناح روڈ، شاہین کمپلیکس پر احتجاج کیا جاسکتا ہے۔

تحریک انصاف کراچی نے کارکنان کو 4 بجے انصاف ہاؤس پر جمع ہونے کی ہدایت کی۔

پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی اور کارکنان نے شاہراہ فیصل کے دونوں ٹریک بند کردیے اور سخت نعرے بازی کی، جس کے سبب ہزاروں گاڑیاں پھنس گئیں۔

مفروضوں پر کسی کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا، ماہر قانون

ماہر قانون بیرسٹر اسد رحیم خان نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کی وضاحت موجود ہے کہ اس طرح مفروضوں پر کسی کو گرفتار نہیں کر سکتے، اس سے پہلے باقاعدہ تفتیش ہونی ہے۔

ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر اسد رحیم خان نے کہا کہ یہ بہت تشویش ناک صورتحال ہے کیونکہ عدالت عظمیٰ کی بھی وضاحت موجود ہے کہ اس طرح مفروضوں پر کسی کو گرفتار نہیں کر سکتے، اس سے پہلے باقاعدہ تفتیش ہونی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جج صغریٰ بی بی کا ایک فیصلہ بھی ہے کہ جب تک آپ بات کی تہہ تک نہیں پہنچتے تو اس طرح گرفتاریاں نہیں کر سکتے اور یہاں (گرفتاری) میں واضح ہوگیا ہے کہ نہ تو آپ تفتیش کی اس سطح پر پہنچے ہیں، نہ کوئی کیس ہے جس میں کوئی خاص وزن واضح ہوا ہے تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس طرح کچھ وقت سے ہمارے بنیادی حقوق محدود سے محدود ہوتے جا رہے ہیں آج کا دن بھی اس کی کڑی ہے۔

بیرسٹر اسد رحیم نے کہا کہ بات یہ نہیں کہ وزیراعظم یا کسی اعلیٰ حکام کو طلب کرلیا جائے گا لیکن بات یہ ہے کہ اگر آپ آئین و قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں تو آپ کس طرف بڑھ رہے ہیں، جہاں بے بنیاد الزامات پر لوگ اٹھائے جا رہے ہیں ان کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر حزب اختلاف کو گرفتار کیا جاتا ہے تو آپ کے سیاسی نظام پر بھی سوالیہ نشان اٹھتے ہیں جب تک کہ کیس میں اس طرح کی تفتیش نہ کی گئی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ بنیادی حقوق اور ہمارے سیاسی نظام کے حوالے سے بالکل ایسا نہیں لگ رہا کہ قانون یا عدالت عظمیٰ کے احکامات کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

ماہر قانون نے کہا کہ اگر قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے گرفتاری کا وارنٹ دکھایا گیا ہے تو نئے قانون کے تحت اس پر تفتیش جاری رہے گی اور ٹرائل کی طرف بڑھا جائے گا جس کے بعد عمران خان کی قانونی ٹیم یہ کہتے ہوئے ان کی ضمانت کی کوشش کرے گی کہ عمران خان تفتیش میں مکمل تعاون کریں گے، فرار نہیں ہوں گے۔

7 مقدمات میں ضمانت منظور

قبل ازیں عمران خان اسلام آباد میں درج 7 مختلف مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے جوڈیشل کمپلیکس پہنچے تھے جہاں انہوں نے وکالت ناموں پر دستخط کیے۔

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پہلے جب ہم آئے تو 5 درخواستیں لے کر آئے تھے، دروازے بند تھے اور 40 منٹ تک شدید شیلنگ کی گئی، ہم لاہور ہائی کورٹ میں گئے اور حفاظتی ضمانت حاصل کی۔

جج راجا جواد عباد حسن نے کہا کہ سلمان صاحب، ہم آپ کی تفصیل بعد میں سنیں گے، آپ کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہیں۔

عدالت نے ہدایت کی کہ عمران خان کی تمام 7 درخواستوں پر دستخط اور انگوٹھے لگوا لیں۔

بعد ازاں عدالت نے عمران خان کی 7 مقدمات میں 50، 50 ہزار کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کر لی۔

عدالت نے 23 مئی تک ضمانت منظور کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر پولیس سے ریکارڈ طلب کر لیا۔

خیال رہے کہ آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے لیے روانہ ہونے سے قبل ایک ویڈیو پیغام سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اپنی توپوں کا رخ پاک فوج کی جانب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عزت صرف ایک ادارے کی نہیں ہر شہری کی ہونی چاہیے اور جو ادارہ اپنی کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے وہ مضبوط ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کے لیے روانگی سے قبل میں 2 باتیں کرنا چاہتا ہوں، آئی ایس پی آر نے بیان دیا ہے کہ ادارے کی توہین کردی، فوج کی توہین کردی۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ ’ایک انٹیلی جنس افسر کا نام لے دیا، جس نے 2 مرتبہ مجھے قتل کرنے کی کوشش کی، آئی ایس پی آر صاحب! ذرا میری غور سے بات سنیں، عزت صرف ایک ادارے کی نہیں ہے، عزت قوم میں ہر شہری کی ہونی چاہیے‘۔

عمران خان نے مزید کہا کہ ’میں اس وقت قوم کی سب سے بڑی پارٹی کا سربراہ ہوں، 50 سال سے قوم مجھے جانتی ہے، مجھے کوئی جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے‘۔

ایک مرتبہ پھر اپنے الزامات دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اس آدمی نے 2 مرتبہ مجھے قتل کرنے کی کوشش کی اور جب بھی تحقیقات ہوں گی میں یہ ثابت کروں گا یہ وہ آدمی تھا، اور اس کے ساتھ پورا ٹولہ ہے اور اس کے ساتھ کون ہیں وہ بھی آج کے سوشل میڈیا کے زمانے میں سب کو پتا ہے‘۔

القادر ٹرسٹ کیس

واضح رہے کہ گزشتہ سال وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے عمران خان اور ان کی اہلیہ پر بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سے ساز باز کر کے بحریہ ٹاؤن کے بدلے القادر ٹرست کی زمین لینے کا الزام عائد کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ اسی بحریہ ٹاؤن نے جس کا 50 ارب روپیہ ایڈجسٹ کیا گیا، اس نے 458 کنال کی جگہ کا معاہدہ کیا جس کی مالیت کاغذات میں 93 کروڑ روپے جبکہ اصل قیمت پانچ سے 10 گنا زیادہ ہے اور یہ زمین بحریہ ٹاؤن نے القادر ٹرسٹ کے نام پر منتقل کی، اس زمین کو بحریہ ٹاؤن نے عطیہ کیا اور اس میں ایک طرف دستخط بحریہ ٹاؤن کے عطیہ کنندہ کے ہیں اور دوسری جانب سابق خاتون اول بشریٰ خان کے ہیں، یہ قیمتی اراضی القادر ٹرسٹ کے نام پر منتقل کی گئی جس کے دو ہی ٹرسٹی ہیں جس میں پہلی بشریٰ خان ہیں اور دوسرے سابق وزیر اعظم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا اور دیگر ذرائع سے یہ بات سامنے آئی کہ بحریہ ٹاؤن کی 50 ارب روپے کی رقم انہوں نے برطانیہ منتقل کی اور اسے مروجہ قانون کے تحت منتقل نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے وہ رقم وہاں ٹریس ہو گئی اور برطانوی حکام اور نیشنل کرائم ایجنسی نے اس رقم کو اپنے قبضے میں لے لیا۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ برطانوی حکام نے پاکستانی حکام سے رابطہ کر کے انہیں آگاہ کیا کہ یہ رقم غیر قانونی ذرائع سے ہمارے پاس پہنچی ہے اور ہم نے اسے قبضے میں لے لیا، اس کی ملکیت حکومت پاکستان اور پاکستان کے عوام کی ہے تو یہاں سے ایسٹ ریکوری یونٹ کے شہزاد اکبر نے ریاست کی طرف سے اس معاملے کو دیکھا لیکن انہوں نے اس رقم کو پاکستان کے عوام کے لیے استعمال کرنے کے بجائے اپنا حصہ مبینہ طور پر 5 ارب روپے طے کر کے دو نمبری کا طریقہ کار بنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ 200 کنال مزید ہے، اس میں 100 کنال اراضی بنی گالا میں ہے اور یہ مسماۃ فرح شہزادی کے نام پر منتقل کی گئی ہے، اس کے علاوہ مارچ 2021 میں مزید 100 کنال اراضی بھی فرح شہزادی کے نام پر منتقل کی گئی، اگست میں مزید 40 کنال اراضی منتقل کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں