سابق رکن قومی اسمبلی محمد اصغر خان نوانی 1970ء کی دہائی میں ایس پی اچھرہ، لاہور ہوا کرتے تھے۔ وہ اپنے سخت گیر رویے کی وجہ سے ہلاکو خان کہلاتے تھے۔ انہوں نے مجھے اپنی زندگی کے چند واقعات بتاتے ہوئے کہا کہ میں نے بہت سی قدر آور شخصیات کو اپنی ملازمت کے دوران گرفتار کیا لیکن جس شخص نے تقویٰ اور سادگی و علمیت سے مجھے متاثر کیا وہ جماعت اسلامی کے سابق امیر میاں طفیل محمد تھے۔

بقول اصغر خان ’مجھے حکم ہوا کہ ان کو گرفتار کریں اور میں ایک ڈی ایس پی اور تین دوسرے پولیس افسران کے ہمراہ ان کے گھر اچھرہ لاہور گیا اور دروازہ کھٹکھٹایا تو انہوں نے خود ہی دروازہ کھولا۔ میں نے مدعا بیان کیا تو انہوں نے کہا مجھے کپڑے اور چند کتابیں اکٹھی کرنے دیں، آپ چند منٹ انتظار کر یں۔ مجھے جس کمرے میں بٹھایا گیا وہ ایک چار پائی، ایک میز، چار معمولی کرسیوں اور بہت سی کتابوں سے سجا ہوا تھا۔ وہ کرائے کا مکان تھا۔ میاں طفیل اندر گئے تو ڈی ایس پی نے مجھے کہا کہ آپ نے کیوں اجازت دی۔ یہ دوسرے دروازے سے بھاگ جائیں گے تو میں نے جواباً اس سے کہا یہ سادگی دیکھ رہے ہو؟ اگر یہ شخص دولت اکٹھی کرنی چاہے تو سارے کمرے میں نوٹ ہی نوٹ ہوں، تمہیں ایمان داری، سادگی نظر نہیں آرہی۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ یہ اتنے طاقت ور ہیں کہ پورے ملک میں آگ لگا سکتے ہیں مگر یہ بزدل اور غیر محب وطن نہیں۔ یہ نظریاتی شخصیت ہیں اور نظریاتی نرسری سے لاکھوں نظریاتی لوگ پیدا کررہے ہیں‘۔

بقول ہلاکو خان (محمد اصغر خان نوانی) ’ابھی ہماری بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ میاں طفیل محمد تیار تھے اور ہم ان کو اپنے ساتھ لے کر سول لائنز تھانے چلے گئے‘۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حسین شہید سہروردی، مولانا مودودی، مفتی محمود، شاہ احمد نورانی، ذو الفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نصرت بھٹو، مولانا عبد الستار نیازی، معراج محمد خان، رسول بخش پلیجو، جی ایم سید، ایئر مارشل اصغر خان، شیخ مجیب الرحمٰن، نواب زادہ نصر اللہ خان، قاضی حسین احمد، سید منور حسن، ملک محمد قاسم، نواز شریف، آصف علی زرداری اور جانے کون کون سی ایسی شخصیات تھیں جو گرفتار ہوا کرتی تھیں اور ایک بار نہیں بار بار مگر کبھی نہ ہنگامہ ہوا نہ فوجی افسران کے گھروں اور ریڈیو اسٹیشن وغیرہ کو آگ لگی تھی۔

پشاور میں پی ٹی آئی کے مشتعل کارکنان نے بدھ کے روز ریڈیو پاکستان کی عمارت کو نذرِ آتش کردیا—تصویر: اے ایف پی
پشاور میں پی ٹی آئی کے مشتعل کارکنان نے بدھ کے روز ریڈیو پاکستان کی عمارت کو نذرِ آتش کردیا—تصویر: اے ایف پی

سابق وزیر اعظم عمران خان کے کرپشن کے ایک مقدمے میں گرفتار ہوتے ہی ملک میں پر تشدد مظاہرے و فسادات شروع ہوگئے۔ ایسا بنگلہ دیش کے قیام سے قبل ہوا تھا۔ سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ سینیٹر اعجاز چوہدری جو کہ میاں طفیل محمد کے داماد بھی ہیں آخر کیوں کر عمران خان کی سیاست کو فوجی ٹکراؤ کی طرف لے جانے کی کوشش کررہے ہیں اور ان کے ساتھ میاں محمود الرشید، پنجاب کے سابق وزیر تعلیم ملک غلام نبی کی بہو ڈاکٹر یاسمین راشد کیا چاہتے ہیں؟ سیاست دان خود غرض اور خود پسند تو ہوتا ہی ہے مگر ذہنی طور پر وہ مستقبل کی جانب نظر اٹھا کر جائزہ لینے کی صلاحیت کا بھی مالک ہوتا ہے۔

عمران خان کی تحریک انصاف پر پابندی عائد ہوسکتی ہے اس کو ملک میں بے امنی پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے لیکن یہ مسئلے کا حل ہوگا یا نئے مسائل کو جنم دے گا؟ یہ حکومت اور عدالتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتی ہیں تاہم ایک جانب طے ہے کہ اب حوالات سے نکل کر پھر حوالات میں ہی رہنا ہے۔ جوڈیشل ریمانڈ کے بعد پھر جوڈیشل ریمانڈ ہوگا۔ عدالتوں نے عبوری ضمانت منظور کر رکھی ہے اور ایسے ملزم کے لیے تفتیش میں شریک ہونا اور عدالت میں حاضری لگوانا ضروری ہوتا ہے لیکن جسمانی ریمانڈ کے ساتھ نہ تو کسی دوسرے مقدمے میں شامل تفتیش ہوسکتے ہیں اور نہ ہی عدالت میں جاکر عبوری ضمانت میں توسیع ہوسکتی ہے گویا ایک مقدمے میں ضمانت ہوگئی تو دوسری میں گرفتاری اور اس دوران 14 مئی کی تاریخ تو گزر ہی جائے گی اور انتخابات نہیں ہوں گے۔

توہین پارلیمنٹ یا توہین عدالت میں سے کیا کار گر ہوگا چند دن میں معلوم ہوجائے گا۔ فارن فنڈنگ یا ممنوعہ فنڈنگ کے معاملات بھی ابھی حل طلب ہیں۔ بچی کے معاملے میں نااہلی کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ توشہ خانہ کے لیے غالباً 13 مئی کو پھر سماعت ہونی ہے۔ جہاں تک آئی ایس پی آر کا بیان ہے تو واضح ہے کہ جن جن کی نشان دہی ہوچکی ہے ان کے خلاف مقدمات تو بن کر رہیں گے، گرفتاریاں بھی ہوں گی اور کارِ سرکار میں مداخلت، فوج پر حملہ، ان مقدمات کو فوجی عدالتوں میں بھی لے جایا جاسکتا ہے۔

رینجرز اہلکار سابق وزیراعظم عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کرکے لے جارہے ہیں
رینجرز اہلکار سابق وزیراعظم عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کرکے لے جارہے ہیں

پنجاب کے اکثر سیاست دان فوج کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرتے ہیں اور مثال کے لیے چوہدری پرویز الٰہی ہی کافی ہیں۔ ایسے ریٹائرڈ فوجی جن کے بارے میں معلومات ہیں ان کے خلاف کارروائی کی توقع ہے، ان پر اگر مقدمات بنے تو یقیناً فوجی عدالتوں میں ہی فیصلہ ہوگا اور اگر کہیں مماثلت یا موافقت نظر آئی یا امداد کی گواہی ملی تو پھر سب کا معاملہ ایک ہی ہوگا۔

پنجاب میں دفعہ 245 کے تحت فوج کا سول انتظامیہ کی مدد کو آنا کسی عدالت میں چیلنج ہوا تو صورتحال مختلف ہوگی اور یہ معاملہ ایمرجنسی کی طرف بھی جاسکے گا اور اس کے تحت عدالت کا دائرہ کار مختصر ہو جاتا ہے۔ 1977ء میں دفعہ 245 کے تحت فوج کے لاہور آنے پر عدالتی فیصلہ ہوا تھا مگر اثرات اچھے نہ ہوسکے تھے آج کی صورت حال میں جب کہ کے پی کے اور پنجاب میں بے امنی ہے اور یہ مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے تو پھر منصفانہ، آزادانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابات کیسے ہو سکیں گے؟ اور اگر عمران خان کو سزا ہوگئی تو پی ٹی آئی کے کئی ٹکڑے ہوں گے اور جوتیوں میں دال بٹے گی۔

عمران خان نے آئین کی خلاف ورزی کی، اسمبلیوں کی تذلیل کی، ان کو بے توقیر کیا، ریاستی اداروں میں تصادم کروایا، سفارتی سطح پر تعلقات خراب کیے، معاشی حالات دانستہ طور پر خراب کیے، ہر فیصلے کو اپنی پسند نا پسند کی بنیاد پر کیا گویا پورے نظام اور حکومت کو برباد کر کے رکھ دیا۔ اب مدتوں قوم اس کا خمیازہ بھگتے گی اور جانے کب کشتی ڈوب جائے کیونکہ منجدھار میں تو پھنسی ہوئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں