جوہری تابکاری سے متاثر ہونے والے انسانوں کو خطرناک بیماریوں سے بچانے کے لیے بنائی گئی دوائی کا انسانوں پر آزمائش کا پہلا پروگرام شروع کردیا گیا۔

اس وقت دنیا میں ایسی کوئی خصوصی دوا دستیاب نہیں ہے جو تابکاری سے متاثر ہونے والے انسانوں کو بچا سکے، تاہم ماہرین صحت دیگر ادویات سے تابکاری کے اثرات کم کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔

کئی سال سے دنیا بھر کے ماہرین صحت ’امریکیئم، پلوٹونیئم اور کیوریئم‘ نامی تابکار مادوں سے متاثر ہونے والے افراد کو دو مختلف انجکشن دے کر ان کی صحت بہتر بنانے کی کوشش کرتے آ رہے ہیں۔

علاوہ ازیں ماہرین صحت ’آئیوڈین اور پوٹاشیم‘ سے بنی گولیاں بھی تابکاری سے متاثر ہونے والے افراد کو دیتے آ رہے ہیں۔

چرنوبل پاور پلانٹ میں 1986 میں ہونے والے جوہری دھماکوں کے بعد ماہرین صحت نے تابکاری سے متاثر ہونے والے افراد کو ’آئیوڈین اور پوٹاشیم‘ کے اجزا سے بھرپور گولیاں دیں اور تاحال مذکورہ گولیوں سمیت دیگر چند انجکشنز کو تابکاری سے متاثر ہونے والے افراد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

تاہم اب پہلی بار تابکاری سے متاثر ہونے والے افراد کے لیے بنائی گئی خصوصی دوا جسے (HOPO 14-1) کا نام دیا گیا ہے، اس کی انسانوں پر آزمائش شروع کردی گئی۔

امریکی حکومتی طبی جریدے ’این آئی ایچ‘ کے مطابق ڈرٹی بم میں استعمال ہونے والے کیمیکل (diethylenetriamine pentaacetate) (ڈی ٹی پی اے) سے تیار کردہ گولیوں کو محدود 42 رضاکاروں پر آزمایا جائے گا۔

مذکورہ رضاکاروں کو انتہائی سخت نگرانی میں (HOPO 14-1) گولیاں دی جائیں گی، جس سے متعلق ماہرین کو امید ہے کہ یہ گولیاں انسانی جسم سے تابکاری کو ختم کرنے میں مدد فراہم کریں گی۔

ماہرین کو توقع ہے کہ مذکورہ گولیاں کھانے سے کسی بھی طرح کی تابکاری سے متاثر انسان کے جسم سے تابکاری کے اثرات ختم ہوجائیں گے۔

مذکورہ گولیاں (HOPO 14-1) نہ صرف جوہری بلکہ عام تابکاری سے بھی انسانی جسم کو پاک کرنے میں مدد فراہم کریں گی اور اگر ان کی آزمائش کامیاب گئی تو میڈیکل سائنس ایک نئی دنیا میں قدم رکھے گی۔

جوہری تابکاری سمیت دیگر تابکاری اور زہریلے کیمیکل سے متاثر ہونے والے افراد میں کینسر سمیت دیگر موذی امراض ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور ماہرین مذکورہ گولیوں کو خطرناک بیماریوں سے بچاؤ کی دوا کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔

مذکورہ دوائی کی آزمائش مشی گن کے ایک ہسپتال میں کی جائے گی اور رضاکاروں کو انتہائی سخت نگرانی میں رکھا جائے گا جب کہ انہیں دوائی دیے جانے کے بعد مسلسل 14 دن تک آئی سی یو میں رکھا جائے گا۔

ٹرائل کے دوران 18 سے 65 سال کی عمر کے رضاکاروں کو 6 مختلف گروپوں میں تقسیم کیا جائے گا اور ہر گروپ میں 7 ارکان شامل ہوں گے۔

ہر گروپ کے رضاکاروں کو (HOPO 14-1) گولیوں کے مختلف یعنی کم اور زیادہ ڈوز دیے جائیں گے، جس کے بعد رضاکاروں پر دوائی کے اثرات کو دیکھا جائے گا۔

ٹرائل سے قبل تمام رضاکاروں کی صحت کی مکمل جانچ کی جائے گی اور توقع ہے کہ مذکورہ آزمائش کے نتائج 2024 کے وسط یا اختتام تک آجائیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں