ملک میں موجود حالیہ سیاسی افراتفری اور قانونی پیچیدگیوں سے دور، پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند امیدواروں کو اس وقت وہ تمام وسائل جمع کرنے میں مصروف ہونا چاہیے جوکہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ضروری ہیں۔

اصول تو یہی ہے کہ کوئی بھی پاکستانی عوامی حمایت کی بنیاد پر صوبائی یا قومی اسمبلی کے انتخابات میں متعلقہ حلقے سے کھڑا ہوسکتا ہے اور ان کی حمایت کا اظہار لوگ بیلٹ باکس میں ان کے حق میں ووٹ ڈال کر کرتے ہیں۔

تاہم اس عمل میں استعمال ہونے والے مالیاتی وسائل پر اگر مختصر نظر ڈالی جائے تو صرف وہی لوگ انتخابات میں کھڑے ہوتے ہیں جو یا تو خود امیر ہوتے ہیں یا پھر انہیں اقتدار میں موجود اشرافیہ کی حمایت حاصل ہو، یا پھر ایک عام آدمی کی قسمت چمکے اور ایک وسائل رکھنے والی جماعت اسے اپنی جانب سے انتخابات میں کھڑے ہونے کا موقع دے دے۔ ایک وقت میں متحدہ قومی موومنٹ اور جماعتِ اسلامی سے وابستہ بہت سے رکنِ قومی و صوبائی اسمبلی کا شمار بھی اسی قسم میں ہوتا تھا جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔

’اس سب کے علاوہ انتخابی مہم ایک مہنگا کام ہے جو عام لوگوں کے وسائل سے باہر ہے۔ ایک ایسا شخص جس کے لیے نام زدگی کے مرحلے پر الیکشن کمیشن کا زرِ ضمانت ادا کرنا مشکل ہو، وہ قانون ساز ایوان میں نشست حاصل کرنے کا خواب کیسے دیکھ سکتا ہے‘؟ یہ کہنا تھا کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک سیاستدان کا جو 2008ء کے عام انتخابات میں حصہ لینے اور جیتنے کے خواہشمند تھیں۔ بعدازاں انہوں نے مخصوص کوٹے پر قومی اسمبلی میں نشست حاصل کی۔

الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق قومی اسمبلی کے لیے 30 ہزار جبکہ صوبائی اسمبلی کے لیے 20 ہزار سیکیورٹی ڈپازٹ یا نام زدگی فیس ہے۔ اگر امیدوار اپنے متعلقہ حلقوں میں 25 فیصد سے کم ووٹ حاصل کریں گے تو یہ رقم حکومت ضبط کرلے گی۔ 2018ء کے انتخابات میں ہم نے دیکھا کہ 6 ہزار امیدوار 25 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے جن کی جمع کردہ رقوم ضبط ہوگئیں۔

یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ امیدواروں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے ’انتخابات کا دورانیہ‘ مختلف ہے، اور یہی وجہ ہے کہ جانچ پڑتال کے لیے ذمہ دار امیدواروں کے اکاؤنٹس انتخابی اخراجات کا پوری طرح احاطہ نہیں کرتے۔

جس دن امیدوار اپنے کاغذاتِ نام زدگی جمع کرواتے ہیں اسی دن سے الیکشن کمیشن کے قواعد اس پر لاگو ہوجاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی ترجمان قرۃ العین فاطمہ نے ٹیلی فون پر ہم سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’قانون کے مطابق امیدوار کو انتخابی مہم کے لیے فنڈز فراہم کرنے کے لیے ایک مخصوص بینک اکاؤنٹ کھولنا اور کاغذات نام زدگی میں اکاؤنٹ نمبر درج کرنا ضروری ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 2022ء میں انتخابی عمل میں مالیاتی انتظامات کو بہتر بنانے کے لیے مالیاتی ونگ تشکیل دیا تھا۔ ’قانون حکم دیتا ہے کہ تمام امیدوار جانچ پڑتال کے لیے اپنے تمام اخراجات کا ریکارڈ الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں۔ وہ انتخابی مہم کے دوران تمام ادائیگیاں اسی اکاؤنٹ سے کرنے کے پابند ہیں‘۔

پارٹی کی جانب سے نام زد کیے جانے والے امیدواروں کے اخراجات آزاد امیدواروں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں کچھ مستثنیات ہوسکتی ہیں لیکن عام طور پر ایک مقبول سیاسی جماعت کی جانب سے انتخابی مہم چلانے کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتیں اکثر ٹکٹ فراہم کرنے سے قبل امیدواروں سے بڑی رقم وصول کرتی ہیں تاکہ انتخابات سے پہلے وہ اپنے مالیات کو مضبوط کرسکیں۔

پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر نے اس موضوع کے حوالے سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا ایک دوست جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے حصول کے لیے کوشش کررہا ہے اس نے بتایا کہ اس کے انتخابی بجٹ کا نصف حصہ پارٹی استعمال کرچکی ہے۔ انہوں نے انتخابات کے لیے 10 کڑور روپے کی رقم جمع کی تھی جس میں سے 6 کروڑ روپے انہوں نے پارٹی کو ادا کیے جبکہ اب وہ پریشان ہیں کہ بقیہ رقم کیا کامیاب انتخابی مہم چلانے کے لیے کافی ہوگی بھی کہ نہیں‘۔

ایک اور کاروباری شخصیت جو متعدد جماعتوں کے امیدواروں کی مالی طور پر حمایت کرتے ہیں، نے اخراجات کی حد کا مذاق اڑایا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرا یہ خیال ہے کہ مقرر کردہ حد انتہائی کم ہے اور یہ حد بندی غیر ضروری ہے۔ یا تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اسے حقیقت پسندانہ بناکر جانچ پڑتال کی صلاحیت کو بڑھانا چاہیے یا پھر سرے سے اس خیال کو ہی ترک کردے‘۔

حکومت انتخابات کو مالیاتی طور پر شفاف بنانے کے لیے سنجیدہ ہونے کا دعویٰ کرتی نظر آتی ہے لیکن ان کی کوششوں کے ثمرات ابھی سامنے نہیں آسکے ہیں۔ تاہم اگر سیاسی مالیاتی نظام میں نظم و ضبط قائم کرنے کی کوششوں کو دیکھا جائے تو اس کی تاریخ 1971ء میں پہلے عام انتخابات منعقد ہونے سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ یہ انتخابات مارچ 1956ء میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قیام کے 15 سال بعد منعقد ہوئے تھے۔

اس کے بعد سے الیکشن کمیشن میں متعدد بار اصلاحات لائی گئی ہیں۔ 1971ء سے قبل بھی پاکستان میں انتخابات کے نام پر جو بھی تجربات ہوئے ان میں بھی امیدواروں کے لیے مالیاتی ضوابط موجود تھے پھر چاہے وہ کاغذی ہی کیوں نہ ہوں۔

امیدواروں کے لیے اخراجات کی حد—ٹیبل: ریحان احمد
امیدواروں کے لیے اخراجات کی حد—ٹیبل: ریحان احمد

یہ ٹیبل الیکشن کمیشن کے ساتھ بھی شیئر کیا گیا۔ البتہ ادارے نے اس کو غلط قرار نہیں دیا لیکن یہ ضرور کہا کہ حقائق کی تصدیق کے لیے وہ متعلقہ ریکارڈ چیک کریں گے جس کے لیے وقت درکار ہے۔

گزشتہ 60 سال سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے اخراجات کی حد کئی گنا بڑھ چکی ہے لیکن ڈان کی جانب سے 2013ء اور 2018ء میں کیے جانے والے انٹرویوز اور مارکیٹ سرویز سے اس بات کی نشان دہی ہوئی کہ اس عمل کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے طے کی گئی حد کی کوئی پابندی نہیں کرتا۔

باخبر اندازوں کے مطابق 2008ء کے بعد سے ہونے والے 3 عام انتخابات میں امیدواروں نے الیکشن کمیشن کی طے کردہ حد سے 10 گنا زیادہ رقم خرچ کی۔ 2018ء کے عام انتخابات میں 4 لاکھ کی حد مقرر تھی جبکہ قومی اسمبلی کے امیدواروں سے اوسطاً 4 کروڑ خرچ کیے۔ صوبائی اسمبلی کے لیے یہی حد 2 لاکھ تھی جبکہ کسی امیدوار نے بھی 2 کروڑ سے کم رقم خرچ نہیں کی۔

ایک مبصر نے تبصرہ کیا کہ ’حیرت ہوتی ہے کہ الیکشن کمیشن وہ سب کیوں نہیں دیکھ سکتا جو نابینا شخص کو بھی نظر آرہا ہے۔ سڑک پر چلنے والے کسی بھی راہگیر سے پوچھ لیں تو انتخابی مہم میں خرچ ہونے والا اس کا تخمینہ حقیقت کے قریب تر ہوگا نسبتاً ان لوگوں کے جن کا کام نگرانی اور انتخابی اخراجات کو منظم کرنا ہے۔ یہ ایک معصومانہ بھول نہیں ہوسکتی‘۔

شہری حقوق کے کارکن اور سینٹر فار سوک ایجوکیشن پاکستان کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ظفر اللہ خان نے سیاسی مالیاتی نظام پر کام کیا ہے، انہوں نے اس نظریے کی تائید کی کہ پاکستان میں انتخابات منافع کمانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔

’مقابلہ بازی کے اس دور میں، خالی جیب والے شخص کے لیے انتخابی عمل میں حصہ لینا انتہائی دشوار ہے۔ اگر انتخابات میں حصہ لینے کا خواہش مند امیدوار امیر نہیں ہے تو اسے امیر اسپانسرز کی ضرورت ہوگی‘۔

انتخابی مہم میں ہونے والے اخراجات جاننے کے لیے ہم نے بہت سے موجودہ اور سابق ارکانِ اسمبلی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا ردِعمل اطمینان بخش نہیں تھا۔ کوئی یہ کہنے کو تیار نہیں تھا کہ مجموعی طور پر کتنی رقم خرچ ہوئی۔ بہت سے لوگوں نے اس رقم کو مضحکہ خیز حد تک کم بتایا۔ البتہ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ انتخابی مہم میں خرچ ہونے والی 80 فیصد رقم نقد کی صورت میں ادا کی جاتی ہے۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر ڈان بزنس اینڈ فنانس ویکلی میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں