وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ملک کو کوئی خطرہ نہیں ہے، ہمارے وجود کو ایک ہی خطرہ ہے وہ ہے معیشت کا، 75 برسوں میں بجٹ میں بنیادی تبدیلیاں نہیں کی گئیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ 75 برسوں میں بجٹ میں بنیادی تبدیلی لانے کے لیے کوئی اہم اقدام نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہر سال بجٹ ایک ہی انداز میں پیش کیا جاتا ہے جس میں 75 برسوں میں بنیادی تبدیلیاں نہیں کی گئیں۔

وزیر دفاع نے کہا کہ وزیر خزانہ نے اس سال جو بجٹ پیش کیا ہے اس میں ہر ممکنہ کوشش کرکے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے اور اس میں کچھ حد تک کامیابی ہوئی ہے، لیکن عام لوگوں کے حالات اس سے خراب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسحٰق ڈار نے بجٹ پیش کرکے جو کوشش کی ہے حالانکہ عام آدمی کے حالات اس سے بہت بڑی کوشش کی طلب کرتے ہیں، لیکن برسوں سے ہماری معاشی ابتری کا سلسلہ وہاں تک پہنچ چکا ہے جہاں عام آدمی کا سانس لینا بھی دشوار ہوگیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک ایسا طبقہ تیار کرلیا ہے جس کے پاس تمام تر مراعات ہیں جس کو عام الفاظ مں ’ایلیٹ‘ طبقہ کہا جاتا ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ہمیں جو سود ادا کرنا ہے وہ وفاقی حصول سے زیادہ ہے، یعنی وفاقی آمدن سود بھی ادا نہیں کر رہی جو کہ 60 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یوں تو آمدنی میں کمی کی بہت وجوہات ہیں مگر دو اداروں کا قرضہ ایک ہزار ارب سے زیادہ ہے، ایک ادارے پر 7 سو ارب قرض ہے جس کا 86 ارب روپے سود ادا کیا جاتا ہے، دونوں ادارے معاشی حوالے سے انتہائی خراب ہیں جن کو جتنا جلدی ہو بند کرنا ہی بہتر ہوگا۔

’ملک کا ایک ایک بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ حالات چھپے ہوئے نہیں ہیں، ملک میں ہزاروں ارب روپے ایسے اداروں کو زندہ رکھنے کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں جن کا فعال رہنا ناممکن ہے، یا ان کو زندہ رکھ کر ان کو پیسے دینا ریاست کے خلاف جرم ہے، ہمارے ملک میں ’غربت مکاؤ‘ اداروں نے غربت ختم تو نہیں کی لیکن ان کے سی ای اوز کی 30، 35 لاکھ روپے تک تنخواہ ہے، اس ملک کا ایک ایک بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ ایک نجی ادارے نے رپورٹ پیش کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ریئل اسٹیٹ 500 ارب روپے ٹیکس ادا نہیں کرتا اور اس شعبے میں ایسے ایسے لوگ ہیں جن کا ٹیلی ویژن پر نام لینا بھی منع ہے، جیسے ملک ریاض ہیں۔

’ٹیکس میں ڈاکا مارنے والے لوگ پارلیمنٹ میں موجود ہیں‘

انہوں نے کہا کہ تمباکو میں 240 ارب روپے چوری ہو رہے ہیں، دو بیرونی کمپنیاں 99 فیصد ٹیکس ادا کر رہی ہیں جبکہ باقی تمام کمپنیاں ایک فیصد ٹیکس ادا کر رہی ہیں اور اتنا بڑا ڈاکہ ڈالنے والے لوگ پارلیمان میں موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آٹو موبائل اور ٹائلز میں 50 ارب روپے کا ٹیکس چوری ہو رہا ہے، آٹو لبریکنٹس 56 ارب روپے، فارماسوٹیکل 65 ارب روپے اور چائے کی درآمد میں 45 ارب روپے، اسٹیل کے شعبے میں 30 ارب روپے، ریٹیل کے شعبے میں 2 ہزار 880 ارب روپے کی چوری ہو رہی ہے، اسی طرح یان میں 222 ارب روپے کی چوری ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس ملک میں ریونیو میں ہزاروں ارب روپے کی چوری ہو رہی ہو وہ کہاں سے بجٹ پیش کرے گا، اسحٰق ڈار نے عوام کو ریلیف دے کر بہادری کا کام کیا ہے لیکن ہمیں مستقل حل تلاش کرنا ہوگا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ جامعات کے وائس چانسلرز ارب پتی بن گئے ہیں جو جامعات کے فنڈز کھا جاتے ہیں، عدالتوں میں ان کے کیسز زیر التوا ہیں مگر عدلیہ بھی اس میں ملوث ہے، عدلیہ میں اس وقت 2 ہزار ارب سے زیادہ ٹیکس کے کیسز زیر التوا ہیں لیکن ان پر کوئی فیصلہ نہیں ہے۔

’سارے نظام کو ایک طبقے نے شکنجے میں لیا ہوا ہے‘

انہوں نے کہا کہ جب تک نظام میں بنیادی تبدیلیاں نہیں لائی جاتی کوئی ایسا بجٹ پیش نہیں کیا جا سکتا جو سرپلس ہو اور 22 کروڑ کی آبادی کے لیے مفید ہو، اس ملک میں تمام معاشی امراض کا علاج موجود ہے لیکن ہمت نہیں ہے کیونکہ سارے نظام کو ایک طبقے نے شکنجے میں لیا ہوا ہے۔

عدلیہ سے متعلق بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ جس دن قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر ہوا اسی دن اس ادارے (عدلیہ) میں دراڑ پیدا ہوئی، اگر ان لوگوں کو اپنے ادارے سے محبت ہوتی تو وہ ریفرنس کے خلاف قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کھڑے ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری تاریخی غلطیاں تین، چار کا فیصلہ دینے سے درست نہیں ہوں گی، ایوان میں موجود ہم لوگ ہر غلط یا درست تنقید کو برداشت کرتے ہیں، لیکن یہاں ایسے مزاج ہیں کہ لوگ دو دو، تین تین وزیراعظم کھاگئے، ہضم کر گئے ڈکار بھی نہیں لیا، پھانسی لگادیا، کسی نے مڑ کر پیچھے بھی نہیں دیکھا، کسی نے معذرت نہیں کی، تاریخ سے بھی معافی نہیں مانگی۔

’آج بھی سروں پر بادل منڈلا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف قرض دے گا یا نہیں‘

وزیر دفاع نے کہا کہ ان تمام امراض کا علاج نہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس ہے، نہ ورلڈ بینک ہے پاس نہ پیرس کلب کے پاس اور نہ ہی ہمارے دوست ممالک کے پاس اس کا علاج ہے بلکہ یہ علاج ہمارے پاس ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ہزاروں ارب روپے کے ٹیکس ادا نہیں کیے جاتے، ان حالات میں اسحٰق ڈار نے پتا نہیں کس طرح بجٹ تیار کیا ہے لیکن آج بھی ہمارے سر پر بادل منڈلا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف قرض دے گا یا نہیں، ہمیں بیرون قوتوں سے کوئی خطرہ نہیں لیکن سب سے بڑا خطرہ اندرونی حالات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ملک میں اس طرح کے حالات ہوں تو پھر 2018 میں جو ہوا وہی ہوتا ہے اور پھر 9 مئی جیسے واقعات اس کے نتائج ہوتے ہیں، ایک شخص چند ہزار لوگوں کے ساتھ ریاست کو چیلنج کرتا ہے، وہ کوئی سیاسی لڑائی نہیں لڑتا بلکہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتا ہے، 9 مئی کو ملک میں بغاوت ہوئی، 75 سالہ تاریخ میں بڑے سانحے ہوئے لیکن کبھی کسی نے ریاست کو چیلنج نہیں کیا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ سیاستدانوں پر پہاڑ ٹوٹ پڑے، سانحات کا مقابلہ کیا لیکن ایک شخص سے اقتدار کیا گیا اس نے کوشش کی کہ ریاست کو یرغمال بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس (عمران خان) نے ٹوئٹ کیا کہ 9 مئی کے واقعات منصوبہ بند تھے، سب کچھ کروایا گیا تھا، آپ (عمران خان) کی دو ہمشیرائیں وہاں موجود تھیں، آپ کے اراکین اسمبلی وہاں موجود تھے، تو کیا وہ ملوث تھے، میانوالی، جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤس پر حملوں میں بھی آپ کے وزرا ملوث تھے، یہ کونسی سازش ہوئے جس میں ان کے سارے اپنے لوگ تھے۔

’جس سانپ کو ہم نے خود دودھ پلایا، اس نے 9 مئی کو قوم کو ڈسا‘

وزیر دفاع نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث 32 سو افراد کی شناخت ہو چکی ہے، شیر خان کی بہادری کی داستان تو بھارت میں بیان کی جاتی ہے، لیکن ان کے مجسمے کو توڑ دیا گیا، جنگ میں بھی دشمن فوجیوں کی لاشوں کی بے حرمتی نہیں کی جاتی، 9 مئی کو پاکستان کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 75 سال میں جو کام ازلی دشمن نہ کر سکا وہ اندرون دشمن، جس سانپ کو ہم نے خود دودھ پلایا، اس نے 9 مئی کو اس قوم کو ڈسا اور کہتا ہے میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، کیا ہم نے کہا تھا کہ استعفے دو، اگر استعفے نہ دیتے تو اسمبلی میں بیٹھے ہوتے، اس نے دونوں حکومتیں ہمارے حوالے کردیں۔

’ہم میں فنڈز اکٹھا کرکے قومی دولت بڑھانے کی ہمت نہیں ہے‘

خواجہ آصف نے کہا کہ اس ملک کو کوئی خطرہ نہیں ہے، ہمارے وجود کو ایک ہی خطرہ ہے وہ ہے معیشت کا، جو ایسی معیشت ہے جس میں اعداد و شمار بالکل بھی مماثلت نہیں رکھتے، ہمارے پاس وسائل موجود ہیں جن سے ہم فنڈز اکٹھا کرکے قومی دولت بڑھا سکتے ہیں لیکن ہم میں ہمت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کے ہاتھوں میں بجلی کے بل ہیں لیکن وہ ادا نہیں کر سکتے، لوگوں کے پاس وسائل نہیں ہیں، جب کسی سماج میں اس طرح کے غیرمتوازن پیدا ہوں تو وہ سماج نہیں چل سکتا، تمباکو کے چور اسمبلیوں اور سینیٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں جو صرف ایک ارب ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے دو غیرملکی کمپنیاں 175 ارب ٹیکس ادا کرتی ہیں۔

’ایک ایسا مافیا ہے جس کےخلاف کچھ کریں تو ہر طرف سے یلغار ہوجائے گی‘

وزیر دفاع نے کہا کہ ایک ایسا مافیا ہے جس کے خلاف اگر کچھ کیا جائے گا تو چاروں طرف سے یلغار ہو جائے گی، اگر چاروں طرف سے یلغار نہیں ہوگی تو عدلیہ ان کو ریسکیو کرنے آجائے گی، اس طرح ملک نہیں نہیں چلے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ بجٹ کی لین دین میں بنیادی تبدیلیاں وقت کی ضرورت ہے، اگر تبدیلی چاہتے ہیں تو یا ان اداروں کو بند کردیں یا ان کو نجی تحویل میں دے دیں، بجٹ میں ریلیف دینے کی پوری کوشش کی گئی ہے اور وہ ملی بھی ہے لیکن یہ ریلیف کافی نہیں ہے کیونکہ زخم بہت گہرے ہیں جن کا علاج بھی اسی طریقے سے ہو سکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں