آبدوز میں پھنسے افراد کی صحت کو کیا خطرات لاحق ہوسکتے ہیں؟

اپ ڈیٹ 22 جون 2023
لاپتا ہوجانے والے ٹائٹن آبدوز کی تلاش پانچویں روز بھی جاری ہے—فوٹو: رائٹرز
لاپتا ہوجانے والے ٹائٹن آبدوز کی تلاش پانچویں روز بھی جاری ہے—فوٹو: رائٹرز

ہزاروں فٹ گہرے سمندر میں ایک چھوٹی سی آبدوز میں پھنس جانے کا تصور ہی دل دہلانے والا ہے۔

لاپتا ہوجانے والی ٹائٹن آبدوز کی تلاش پانچویں روز بھی جاری ہے جہاں پاکستانی نژاد سیاحوں سمیت 5 افراد موجود ہیں۔

ان افراد کی حالت کے بارے میں اب تک کسی کو کچھ نہیں معلوم، تاہم سائنسدان جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آبدوز میں موجود ان افراد کی صحت کیسی ہوگی؟

وقت انتہائی تیزی سے گزر رہا ہے، سائنسدانوں اور ریسکیو ورکرز کے لیے ہر ایک منٹ بہت قیمتی ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ آبدوز میں اب تک صرف 10 گھنٹے کی آکسیجن باقی ہے۔

یاد رہے کہ اتوار کو ٹائی ٹینک کی باقیات کو دیکھنے کے لیے جانے والی 22 فٹ کی چھوٹی آبدوز سے ہر قسم کا رابطہ منقطع ہوگیا تھا، جو شمالی بحر اوقیانوس کی سطح سے دو میل (تقریباً چار کلومیٹر)گہرائی میں موجود ہے۔

ٹائٹن نامی آبدوز امریکا میں قائم کمپنی اوشن گیٹ ایکسپیڈیشن چلاتی ہے، جس کی خصوصیات کے مطابق اسے 96 گھنٹے تک زیر آب رہنے کے لیے بنایا گیا تھا۔

اینگرو کارپوریشن کے وائس چیئرمین اور پاکستانی بزنس مین شہزادہ داؤد، ان کا 19 سالہ بیٹا سلیمان، برطانوی ارب پتی ہمیش ہارڈنگ، فرانسیسی ایکسپلورر پال ہنری نارجیولٹ، اوشین گیٹ کے سی ای او اسٹاکٹن رش اس آبدوز پر سوار تھے جو ٹائی ٹینک کے ملبے کے قریب لاپتا ہوئی۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کینیڈا کی میموریل یونیورسٹی کے ہائپر بارک میڈیسن کے ماہر ڈاکٹر کین لیڈز کہتے ہیں آبدوز میں سوار افراد کے لیے آکسیجن کا ختم ہونا ہی واحد خطرہ نہیں ہے۔

برطانوی تاجر ہارڈنگ، اوشین گیٹ کے سی ای او اسٹاکٹن رش، محقق پال ہنری نارجیولیٹ، پاکستانی بزنس مین شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے—فوٹو: رائٹرز
برطانوی تاجر ہارڈنگ، اوشین گیٹ کے سی ای او اسٹاکٹن رش، محقق پال ہنری نارجیولیٹ، پاکستانی بزنس مین شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے—فوٹو: رائٹرز

ہوسکتا ہے کہ آبدوز کی الیکٹرک پاور ختم ہوگئی ہو، جس کی وجہ سے امکان ہے کہ آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کو کنٹرول کرنے میں کردار ادا کرتی ہوگی۔

جیسے جیسے آکسیجن کی مقدار کم ہوتی جائے گی، تو انسان گہری سانس لیتا رہے گا جس کی وجہ سے انسان کے جسم سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہوتا رہے گا، جس کے ممکنہ طور پر مہلک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

ڈاکٹر کین لیڈز کہتے ہیں کہ ’جب ہوا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار میں اضافہ ہوگا تو یہ گیس اینیستھیٹک (بے ہوش کرنے والی گیس) میں تبدیل ہوجائے گی جس سے انسان گہری نیند یعنی بے ہوشی کی حالت میں چلا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ خون کے خلیوں میں بہت زیادہ گیس ہونا خطرے کی علامت ہے، جسے ہائپر کیپنیا کہا جاتا ہے جس کا اگر علاج نہ کیا جائے تو انسان موت کے منہ میں بھی جاسکتا ہے۔

رائل نیوی آبدوز کے سابق کپتان ریان رمسی کا کہنا ہے کہ انہوں نے ٹائٹن کے اندر کی ویڈیوز آن لائن دیکھی ہیں، فوٹیج سے معلوم ہوتا ہے کہ آبدوز سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا کوئی نظام نہیں ہے جسے اسکربرز کہا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ آبدوز میں مومود افراد کو ہائپوتھرمیا کا خطرہ ہوسکتا ہے، جہاں جسم بہت ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔

ہائپوتھرمیا ایسی حالت کو کہتے ہیں جب آکسيجن کم ہونے سے سانس نہيں آتی، نسيں سکڑ جاتی ہيں، ڈی ہائیڈريشن ہوجاتی ہے، دل بند ہونے لگتا ہے اور جسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔

کپتان ریان رمسی کے مطابق اگر آبدوز سمندری تہہ پر ہے، تو پانی کا درجہ حرارت تقریباً 0 سینٹی گریڈ ہوگا، اگر آبدوز کی الیکٹرک پاور بھی ختم ہو گئی ہے، تو بجلی پیدا نہیں ہوگی جس کی وجہ سے گرمی کا احساس بھی نہیں ہوگا۔

ڈاکٹر لیڈز کہتے ہیں کہ اگر وہ بے ہوش ہیں، تو وہ باہر نکلنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔

جبکہ کوسٹ گارڈ نے خبردار کیا ہے کہ شاید بہت کم آکسیجن باقی ہے، مگر آبدوز میں سوار افراد کسی حد تک زندگی کے لیے ضروری گیس بچا سکتے ہیں۔

ریان رامسی تسلیم کرتے ہیں کہ آبدوز میں موجود افراد جس دباؤ میں ہوں گے اس کے پیش نظر سانس لینا انتہائی مشکل ہے۔

جہاں تک خوراک اور پانی کی بات ہے تو کوسٹ گارڈ کے مطابق مسافروں کے پاس محدود راشن موجود ہے، مگر یہ واضح نہیں کہ ان کے پاس کتنا راشن ہے۔

ان تمام چیلنجوں کے باوجود ڈاکٹرز اور ماہرین آبدوز کی تلاشی کے عمل کو جلد روکنے کے خلاف ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ آکسیجن کی مقدار انتہائی کم ہونے کے باوجود عملہ زندہ رہنے کے قابل ہوسکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں