لکھاری پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ ہیں۔

نریندر مودی کو کبھی گجرات فسادات میں ان کے کردار کی وجہ سے امریکی ویزا دینے سے انکار کردیا گیا تھا لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ اب وہ ایک ایسے ملک کے وزیر اعظم ہیں جسے امریکا چین کو محدود رکھنے کے لیے اہم ملک سمجھتا ہے۔

اب نریندر مودی نے نہ صرف امریکا کا دورہ کیا ہے بلکہ امریکی کانگریس سےخطاب بھی کیا ہے۔ امریکا سمجھتا ہے کہ چین کے ساتھ مقابلے میں بھارت امریکا کا اتحادی بن سکتا ہے۔ دوسری جانب بھارت امریکا کے ساتھ تعلقات بڑھانے کا خواہاں تو ہے لیکن وہ کسی اتحاد کا حصہ بن کر خود کو محدود نہیں کرنا چاہتا۔

بھارتی قیادت سمجھتی ہے کہ امریکا اب بھی سب سے بڑی فوجی اور اقتصادی طاقت ہے اور بھارت کو دفاعی معاہدوں اور ٹیکنالوجی کی صورت میں امریکا سے بہت کچھ مل سکتا ہے۔

بھارت کی فوجی صلاحیتوں کو پہلے ہی دو طرفہ معاہدوں سے تقویت ملی ہے جس میں ایک دوسرے کے ملٹری لاجسٹکس، خفیہ مواصلاتی آلات کی مطابقت اور جغرافیائی انٹیلی جنس کے تبادلے کی اجازت دی گئی ہے۔ مودی کے حالیہ دورہ واشنگٹن کے دوران امریکا نے ہندوستان میں مسلح ڈرون فروخت کرنے اور جنرل الیکٹرک انجن تیار کرنے پر اتفاق کیا۔

اس کے باوجود بھارت روس کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بھارت نے یوکرین کے خلاف جارحیت پر روس کی مذمت نہیں کی اور روسی تیل بھی خریدنا شروع کر دیا، جس سے روس کو مغربی پابندیوں کے منفی اثرات سے بچنے میں مدد ملی۔ اسی طرح بھارت چین کے ساتھ سنگین سرحدی مسائل کے باوجود امریکا کی طرف سے نہیں بلکہ اپنی شرائط پر چین سے نمٹنا چاہتا ہے۔ بھارت نے چین کے ساتھ اپنے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو بھی برقرار رکھا ہے اور برکس، ایس سی او، اے آئی آئی بی اور دیگر فورمز پر چین کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔

امریکا بھی یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ چین یا روس کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت جو کچھ کرسکتا ہے یا کرے گا، اس کی کچھ حدود ہیں۔ اس کے باوجود وہ بھارت میں سرمایہ کاری جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ یہ ملک چین کے خلاف امریکا کے منصوبوں میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ان منصوبوں میں آسٹریلیا، جاپان اور ہند-بحرالکاہل خطے کے کچھ دوسرے ممالک کا تعاون بھی حاصل ہے۔

تو کیا دونوں ملک ایک دوسرے کے حوالے سے غلط فہمی کا شکار ہیں؟ کیا کسی بھارتی وزیر اعظم کا دورہ امریکا باہمی توقعات میں عدم مطابقت کو دور کرسکتا ہے؟

قریبی شراکت داری کے لیے بھارت اور امریکا دو بنیادیں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ایک ہند-بحرالکاہل خطے میں جغرافیائی سیاسی مفادات اور دوسری مشترکہ جمہوری اقدار۔ لیکن ان دونوں حوالوں سے کچھ ایسے مسائل موجود ہیں جو نتائج کو محدود کرسکتے ہیں۔ اگرچہ مشترکہ جغرافیائی سیاسی مقاصد بنیادی طور پر چین کے گرد گھومتے ہیں لیکن بھارت خود کو ’امریکی اتحادی‘ کہلوانے کے لیے تیار نہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اکثر ’اسٹریٹجک خود مختاری‘ کی بات کرتے رہے ہیں۔ ہندوستانی صحافی برکھا دت واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھے گئے اپنے مضمون میں کہتی ہیں کہ ’معذرت، امریکا۔ بھارت کبھی بھی آپ کا اتحادی نہیں بنے گا‘۔ وہ دلیل دیتی ہیں کہ ’ایک کثیر القطبی دنیا میں بھارت خود ایک قوت نظر آنا چاہے گا، نہ کہ ایک خصوصی شراکت دار‘۔

جہاں تک مشترکہ جمہوری اقدار کا تعلق ہے تو امریکا میں بھارت کی کمزور جمہوریت اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ بین الاقوامی مذہبی آزادی کے بارے میں امریکی محکمہ خارجہ کی 2022ء کی رپورٹ نے متعدد ریاستوں میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے حکام کے تشدد کو دستاویزی شکل دی ہے۔

امریکی اسکالر ڈینیئل مارکی نے فارن افیئرز نامی جریدے کے لیے لکھے گئے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کہا ہے کہ بھارت اور امریکا کے تعلقات جمہوریت کی مشترکہ اقدار پر نہیں بلکہ سہولت اور مفادات پر مبنی ہیں۔ درجنوں امریکی قانون سازوں نے صدر جو بائیڈن کو ایک خط لکھا ہے جس میں ان کی توجہ ہندوستان میں سکڑتے ہوئے سیاسی میدان اور مذہبی عدم رواداری کے بڑھنے کی ’پریشان کن علامات‘ کی طرف مبذول کرائی ہے۔

ہندوستانی صحافی راجا موہن نے اس حوالے سے ایک دلچسپ نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ وہ مودی کے دورے کو بھارت-امریکا تعلقات میں ایک ’بنیادی موڑ‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ یہ ہم آہنگی چین کو محدود کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایک نئے کثیر القطبی ایشیا کی تشکیل کے لیے ہے۔ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایشیا باقی دنیا کی طرح تیزی سے کثیر القطبی ہوتا جا رہا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ امریکی نقطہ نظر سے، مودی کا دورہ ہند-بحر الکاہل خطے میں امریکی مقاصد پر مرکوز ہے، جس میں ’کواڈ‘ اور انڈو پیسیفک اکنامک فریم ورک کو بااختیار بنانا شامل ہے۔

مارکی نے کرن تھاپر کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا کہ بھارت کے ساتھ امریکی تعاون کو ان ٹیکنالوجیز تک محدود ہونا چاہیے جو بھارت کو چین کے خلاف اپنا دفاع کرنے کے قابل بناسکیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی کے دورے کے بعد مشترکہ بیان میں چین یا روس کا واضح طور پر تذکرہ نہیں کیا گیا لیکن سرحد پار دہشت گردی کے تناظر میں پاکستان کا منفی حوالہ دیا گیا ہے حالانکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی اور حقیقی نتائج حاصل کیے ہیں۔ امریکہ اچھی طرح جانتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ عالمی برادری کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور اسے اس بیان پر دستخط نہیں کرنے چاہیے تھے جو کہ دوطرفہ اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت کا پاکستان کو مسلسل نشانہ بنانا بدقسمتی اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے برا شگون ہے۔


یہ مضمون 25 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں