ویگنر کی بغاوت ٹلنے کے بعد چین کا روس کی بھرپور حمایت کا اظہار

26 جون 2023
چینی وزارت خارجہ نے اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ روس کا اندرونی معاملہ ہے—فوٹو: رائٹرز
چینی وزارت خارجہ نے اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ روس کا اندرونی معاملہ ہے—فوٹو: رائٹرز

چین نے روس کے باغی گروپ ویگنر کی مختصر دورانیے کی مسلح بغاوت پر پہلا باضابطہ تبصرہ کرتے ہوئے ’قومی استحکام کے تحفظ‘ میں روس کی حمایت کا اعادہ کیا جبکہ امریکا نے اس عارضی بغاوت کو روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے اقتدار میں واضح دراڑ سے تشبیہ دی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق چینی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ایک دوست ہمسایہ ملک اور نئے دور کے جامع تزویراتی تعاون پر مبنی شراکت دار کے طور پر چین قومی استحکام کے تحفظ، ترقی اور خوشحالی کے حصول میں روس کی حمایت کرتا ہے۔

تاہم چینی وزارت خارجہ نے اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ معاملہ روس کا ’اندرونی معاملہ‘ ہے۔

چین نے گزشتہ روز تک روس میں ہفتہ کو اختتام پذیر ہونے والی شورش پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا تھا، جس میں بالاخر روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے معافی کے معاہدے کو قبول کرنے پر مجبور ہونے کے بعد باغی رہنما یوگینی پریگوزین جلاوطنی پر رضامند ہو گئے۔

گزشتہ روز چین کے وزیر خارجہ چن گانگ نے بیجنگ میں روس کے نائب وزیر خارجہ آندرے روڈینکو سے ملاقات کی، دونوں سفارت کاروں نے چین-روس تعلقات کے ساتھ ساتھ اُن بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر تبادلہ خیال کیا جن پر دونوں ممالک مشترکہ طور پر تشویش رکھتے ہیں۔

اس ملاقات کے حوالے سے روس کا کہنا ہے کہ چین نے روس میں صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے روسی فیڈریشن کی قیادت کی کوششوں کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔

پیوٹن کے اقتدار میں واضح دراڑیں

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ’سی بی ایس نیوز‘ کے ٹاک شو ’فیس دی نیشن‘ میں گفتگو کرتے ہوئے مسلح ویگنر گروپ کی جانب سے روس کے خلاف بغاوت کو ولادیمیر پیوٹن کی اتھارٹی کے لیے براہ راست چیلنج قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ پیش رفت اہم سوالات کو جنم دے رہی ہے، یہ واضح دراڑ کو ظاہر کررہی ہے۔

یہ ریمارکس امریکا کی جانب سے روس کو درپیش بحران کے بارے میں پہلا اعلانیہ تبصرہ تھا، جو گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اس بغاوت پر یورپی اتحادیوں کے ساتھ مشاورت میں مصروف رہا۔

انٹونی بلنکن نے گزشتہ روز متعدد ٹاک شوز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کریملن پر یا یوکرین کی جنگ پر اس بغاوت کے اثرات کے حوالے سے قیاس کرنا قبل از وقت ہے۔

انہوں نے ’اے بی سی نیوز‘ کے شو ’دِس ویک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 16 ماہ قبل روسی افواج کیف کی دہلیز پر تھیں اور رواں ہفتے انہیں پیوٹن کے اپنے بنائے ہوئے کرائے کے فوجیوں کے خلاف روس کے دارالحکومت ماسکو کا دفاع کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ ’پریگوزین ڈرامے‘ نے دکھا دیا کہ یوکرین پر حملہ روس کی کتنی بڑی ناکامی ہے اور پیوٹن، جن کی اقتدار پر گرفت حالیہ برسوں میں مکمل طور پر واضح تھی، کو اندر سے چیلنج کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پریگوزین نے یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت کے بارے میں یہ کہہ کر گہرے سوالات اٹھادیے ہیں کہ یوکرین یا نیٹو روس کے لیے خطرہ نہیں ہیں، حالانکہ یہ مؤقف پیوٹن کے بیانیے کا حصہ ہے۔

پیوٹن نے یوگینی پریگوزین پر غداری کا الزام عائد کیا اور سخت سزا کا وعدہ کیا لیکن پھر معافی کا معاہدہ قبول کر لیا جس کے تحت یوگینی پریگوزین ہمسایہ ملک بیلاروس چلے جائیں گے اور روس ان پر یا ویگنر کے اراکین پر مقدمہ نہیں چلائے گا۔

انٹونی بلنکن نے کہا کہ روسی افواج کے خلاف کیف کے جوابی حملے کے درمیان یہ بغاوت میدان جنگ میں یوکرینیوں کی مدد کر سکتی ہے لیکن ہم قیاس نہیں کر سکتے کہ روس میں ’ویگنر بحران‘ کس طرح ختم ہوگا۔

دریں اثنا فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بھی کہا ہے کہ روسی صدر پیوٹن کے خلاف ویگنر گروپ کی بغاوت نے روسی قیادت میں تقسیم ظاہر کردی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں