پاکستان میں آم کی کاشت کو کیسے پائیدار بنایا جاسکتا ہے؟

10 جولائ 2023
آم کو پاکستان میں پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے—تصویر: لکھاری
آم کو پاکستان میں پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے—تصویر: لکھاری

سندھ کے ضلع حیدرآباد میں راہوکی فارمز کے 280 ایکڑ سے زیادہ رقبے پر آم کے سیکڑوں درخت موجود ہیں جن میں سے کچھ 50 یا 100 سال پرانے بھی ہیں۔

ان درختوں پر آم کی 5 اقسام رٹول، دسیری، لنگڑا، سندھڑی اور چونسا کی پیداوار ہوتی ہے۔

راہوکی فارمز کے مالک توفیق پاشا موراج گزشتہ 12 سالوں سے آم کے فارمز کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ سندھ میں آم کے دیگر کاشتکاروں کی طرح وہ بھی فصل پر موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات کے حوالے سے فکر مند ہیں۔

توفیق پاشا کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات جیسے درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ، غیر یقینی تیز بارشیں اور ژالہ باری، آم کی پیداوار پر اثر انداز ہورہی ہیں۔

توفیق پاشا کہتے ہیں کہ ’کسی بھی فصل کی کاشت میں موسم بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ دن اور رات کے گھنٹوں کو بھی ضروری عوامل میں شمار کیا جاتا ہے جو فصل کی نشوونما اور پیداوار میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بہت سی فصلیں (پھل) سردیوں میں لگائی جاتی ہیں اور وہ گرمیوں میں کٹائی کے لیے تیار ہوجاتی ہیں۔ آم کی کاشت کا موسم سردیوں کے آخر میں شروع ہوتا ہے اور گرمیوں کے ابتدائی مہینوں میں پھل پک جاتا ہے‘۔

موسمی پیداوار اور اقسام کو دیکھتے ہوئے آم کی کاشت تین مراحل میں ہوتی ہے۔ یہ مراحل اپریل کے وسط یا مئی کے آغاز میں شروع ہوتے ہیں اور اگست تک جاری رہتے ہیں۔

جنوبی پنجاب میں آم کے کاشت کار شاہد حمید بھٹہ کہتے ہیں کہ ’پنجاب میں آم کی ابتدائی اقسام میں سرولی، لنگڑا، مالدہ اور دسیری شامل ہیں۔ جولائی میں شروع ہونے والے دوسرے مرحلے میں سب سے پہلے چونسہ آم کی مختلف اقسام آتی ہیں جس کے بعد 12 نمبر رٹول، پھر چناب گولڈ اور پھر سیزن کا اختتام عظیم چونسہ آم کی آمد کے ساتھ ہوتا ہے‘۔

آم کی پیداوار کے نازک موسم میں توفیق پاشا موراج اور شاہد حمید بھٹہ دونوں کو ہی غیریقینی موسم کی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

درجہ حرارت کی وجہ سے پیش آنے والے مسائل

کسی بھی فصل کی پیداوار کے لیے درجہِ حرارت انتہائی اہم ہوتا ہے۔ گزشتہ دہائی سے دنیا کا درجہِ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس اتار چڑھاؤ کے باعث موسمی تبدیلیاں بھی رونما ہورہی ہیں جن کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار متاثر ہورہی ہے۔ سندھ اور پنجاب میں آم کے کاشتکاروں کو بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ہے۔

پھول سے پھل بننے تک کے آم کے سفر میں اب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے متعدد رکاوٹیں حائل ہیں۔ آم کی کاشتکاری کے لیے ٹھنڈا اور خشک موسم ہونا ضروری ہے۔ معیاری آموں کی پیداوار کے لیے موزوں درجہِ حرارت 23 سے 33 ڈگری سیلسیئس کے درمیان ہوتا ہے۔

پاکستان میں آموں کی پیداوار کے لیے سال 2022ء اچھا نہیں رہا۔ اس سال شدید سیلاب اور جھلسا دینے والی گرمی کی لہروں کے باعث پارہ 40 ڈگری کی حد کو بھی عبور کرگیا۔ یوں مارچ کا مہینہ جوکہ آم کی کاشت کے لیے اہم ترین سمجھا جاتا ہے، وہ پھل کی پیداوار کے لیے موزوں نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آموں کی پیداوار میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ ملتان مینگو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر عبدالغفار گاریوال کے دعوے کے مطابق آم کی پیداوار تقریباً 60 فیصد کم ہوئی۔

  مارچ کا مہینہ آموں کی کاشت کے لیے اہم ترین سمجھا جاتا ہے
مارچ کا مہینہ آموں کی کاشت کے لیے اہم ترین سمجھا جاتا ہے

توفیق پاشا موراج کے مطابق ’آموں کے لیے درجہِ حرارت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ معتدل درجہِ حرارت (30 سے 33 ڈگری سیلسیئس) ایک اچھی نشانی ہے لیکن درجہ حرارت کا مسلسل بڑھنا یا حد کو تجاوز کرلینا آموں کے لیے بالکل خوش آئند ثابت نہیں ہوتا۔ بڑھتے ہوئے غیرمعمولی درجہِ حرارت کی وجہ سے کیڑوں کو افزائش کا موقع ملتا ہے جن کے لیے یہ سازگار ماحول ہوتا ہے اور وہ تیزی سے افزائش پاتے ہیں۔ کیڑوں کا حملہ خطرناک اور تباہ کن ثابت ہوتا ہے‘۔

محققین اس ماڈل کو ’کیڑوں اور فصل کے باہمی تعلق‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ درجہ حرارت کیڑوں کی فزیالوجی کو متاثر کرتا ہے، ان کے میٹابولک عمل کو تیز کرتا ہے اور یہ ان کی آبادی میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ نتیجتاً فصل کو زیادہ نقصان ہوتا ہے اور یوں پیداوار متاثر ہوتی ہے۔

سندھ آبادگار بورڈ کے نائب صدر محمود نواز شاہ جو موسمیاتی تبدیلی کا مشاہدہ کررہے ہیں، انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ’ہم نے زیادہ درجہ حرارت کے باعث موسمیاتی واقعات میں اضافہ دیکھا ہے۔ یہ واقعات اگر پھول کے ابتدائی مرحلے کے دوران دیکھے جائیں تو یہ آم کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں جبکہ پھل دینے کے مرحلے میں یہ واقعات مزید نقصان کا سبب بن سکتے ہیں۔ موسمی حالات میں ہونے والے تغیر کے ساتھ ہی کیڑوں کے حملے بھی تیز ہوجاتے ہیں‘۔

محمود نواز شاہ کے مطابق کیڑوں کے حملے کافی عرصے سے ہورہے ہیں لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ان میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آم کو متاثر کرنے والی بیماریوں میں سب سے زیادہ نمایاں آموں کی شکل میں بگاڑ آنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’پھلوں کی اس بیماری کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے ابتدائی مرحلے میں ہی ردعمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک متعدی بیماری ہے جو آم کے تمام درختوں کو یکساں طور پر متاثر کرتی ہے۔ یہ آم کے پتوں، ٹہنیوں اور پھولوں کو متاثر کرتی ہے جس کی وجہ سے درختوں کی غیرمعمولی نشوونما ہوتی ہے۔ اس خرابی سے نمٹنے کے لیے کسانوں کو زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے جبکہ اس پر لاگت بھی زیادہ آتی ہے۔ لہٰذا یہ مہنگا طریقہ ہے‘۔

زیادہ درجہِ حرارت آموں کی کاشت میں مسئلے کی جڑ ہے
زیادہ درجہِ حرارت آموں کی کاشت میں مسئلے کی جڑ ہے

اگرچہ توفیق پاشا موراج اور شاہد حمید بھٹہ کے لیے تو زیادہ درجہ حرارت ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن کچھ علاقوں میں بڑھتا ہوا درجہ حرارت فائدہ مند بھی ثابت ہورہا ہے کیونکہ یہ کیڑوں کے حملوں کے خلاف قدرتی تحفظ کی صورت میں معاونت کررہا ہے۔

شاہد حمید بھٹہ بتاتے ہیں کہ ’درجہِ حرارت آم کے سائز، ساخت اور معیار کو متاثر کرتا ہے لیکن گرمی کی لہریں اور لو (گرم ہواؤں)، قدرتی محافظ کے طور پر بھی کام کرسکتی ہیں جو کیڑوں کو مارنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ یہاں (مظفر گڑھ میں) کے آموں کے حوالے سے تو یہ درست ہے‘۔

آموں کا مستقبل

موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات سے کیسے نمٹا جائے؟ یہ انتہائی اہم سوال ہے۔ پاکستان میں دیکھا جائے تو یہاں پائیدار زراعت کے طریقے اپنائے نہیں گئے ہیں۔ مقامی سطح پر ایسے متعدد مسائل ہیں جو غور طلب ہیں۔

سب سے پہلے حکومت کو کاشت کاروں کی مدد کرنے کی ذمہ داری لینے کی ضرورت ہے۔ ملک کی معیشت کے زوال، بجلی کے نرخوں میں اضافے کے ساتھ ہی کیڑے مار ادویات کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔

ماہرِ اقتصادیات اور موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر پرویز رحیم کہتے ہیں کہ ’پائیداری ایک بزدلانہ لفظ ہے جسے آج کل ہر شخص استعمال کررہا ہے۔ اگرچہ یہ صرف نظری اعتبار سے تو اچھا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کرنا انتہائی مشکل ہے۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی افراطِ زر کی شرح اس وقت 40 فیصد ہے اور پیداواری لاگت بھی پائیداری کو ناممکن بناتی ہے۔

’پہلا مسئلہ بجلی ہے۔ بجلی کی موجودہ قیمتوں کے ساتھ کوئی بھی کسان زراعت میں پائیداری کو یقینی نہیں بنا سکتا۔ دوسرا ایندھن کی قیمت جبکہ تیسرا کھاد اور کیڑے مار ادویات اور بیجوں کی قیمت ہے۔ یہ تینوں عناصر زراعت کو غیر پائیدار بناتے ہیں۔ اس میں موسمیاتی تبدیلی کا عنصر بھی شامل ہورہا ہے جس میں اضافے کی وجہ سے زراعت ایک غیر منافع بخش کاروبار بنتا جارہا ہے‘۔

ڈاکٹر پرویز رحیم کے مطابق اسمارٹ ایگریکلچر کے تصور پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’ملک کی معاشی ضروریات، طلب اور برآمدی صلاحیت کو مدِنظر رکھ کر جو رزاعت کی جائے اسے اسمارٹ ایگریکلچر کہتے ہیں۔ پاکستان کے کاشتکار اکیلے یہ کام نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے ہمیں بین الاقوامی برادری کی شراکت داری کی ضرورت ہے۔ جہاں تک آموں کی پیداوار کا تعلق ہے تو اس کے لیے ہمیں متوازی درجہِ حرارت کی ضرورت ہے، نہ کہ ایسے درجہ حرارت کی جو بار بار اتار چڑھاؤ کا شکار ہو‘۔

دوسری جانب محمود نواز شاہ نے آموں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچانے کے لیے چند مقامی اور قلیل مدتی طریقے اپنانا شروع کیے ہیں۔ محمود نواز شاہ نے آموں کے درختوں کے درمیان فاصلہ کم کردیا ہے۔

  ٹنڈو الہٰیار میں کے فارم میں آم کے درخت قریب قریب اگائے گئے ہیں —تصویر: محمود نواز شاہ
ٹنڈو الہٰیار میں کے فارم میں آم کے درخت قریب قریب اگائے گئے ہیں —تصویر: محمود نواز شاہ

وہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ ’بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے ساتھ تیز ہوائیں بھی سنگین مسئلہ ہیں۔ قریب قریب درخت اگانے کی وجہ سے درختوں کے درمیان بہت کم جگہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے تیز ہوا زیادہ اثرانداز نہیں ہوپاتی۔ کیڑوں کے حملوں سے بچنے کے لیے ہم نے پھلوں پر بیگز لپیٹنے کا فیصلہ کیا تاکہ پھلوں کو خراب ہونے اور کیڑوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔ لیکن اگر بڑے پیمانے پر اسے اپنانے کی کوشش کی جائے تو یہ طریقہ مہنگا ہے‘۔

آموں کی پیداوار میں پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ ہمارے ملک میں آم کی کاشت تقریباً ایک لاکھ 69 ہزار ہیکڑ پر ہوتی ہے جس کے نتیجے میں 17 لاکھ ٹن کی مجموعی پیداوار ہوتی ہے۔ یوں آم پاکستان کی دوسری بڑی فصل ہے۔ تمام عناصر کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات میں ہر گزرتے سال مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

تاہم رواں سال مارچ میں درجہِ حرارت 23 سے 33 ڈگری سیلسیئس کے درمیان رہا جبکہ فصل کے ابتدائی مرحلے میں ہونے والی بارش نے کیڑوں کا خاتمہ کردیا گیا جس کی وجہ سے اس سال آموں کی فصل گزشتہ سال کی نسبت بہتر رہی۔

لیکن کسی کو کیا پتا کہ اگلے سال درجہ حرارت، سیلاب، بارشوں اور ژالہ باری کے اثرات کس حد تک تباہ کُن ہوسکتے ہیں؟ کوئی طویل مدتی حل نہ ہونے کی صورت میں کاشت کاروں کو ہر سال کے آغاز میں صرف دعاؤں کے بھروسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔


یہ مضمون 2 جولائی 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں