3 ارب ڈالر کے قرضوں سے متعلق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی تحقیقات پر سوالات اٹھ گئے

اپ ڈیٹ 08 جولائ 2023
پی اے سی اراکین کا مطالبہ تھا کہ پی ٹی آئی دور میں ان آسان قرضوں سے مستفید ہونے والوں کے نام بتائے جائیں—تصویر: کمیٹیز آف این اے ٹوئٹر
پی اے سی اراکین کا مطالبہ تھا کہ پی ٹی آئی دور میں ان آسان قرضوں سے مستفید ہونے والوں کے نام بتائے جائیں—تصویر: کمیٹیز آف این اے ٹوئٹر

قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے کووڈ کے دوران عارضی اقتصادی ری فنانس سہولت (ٹی ای آر ایف) کے تحت 3 ارب- ڈالر کے سبسڈی والے قرضے حاصل کرنے والے کاروباری اداروں کے ناموں کا پتا لگانے کے حکم پر بڑے صنعتی گروپوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جب کہ بڑے کاروباری گروپوں کے ترجمان اس اقدام کے استدلال پر سوال اٹھاتے خفیہ ٹوئٹس کر رہے ہیں، بڑے سرمایہ کے نمائندہ چیمبر نے ٹی ای آر ایف کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان ’واحد مؤثر اقدام‘ قرار دیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کی اس سہولت نے صنعت کاروں کو اپریل 2020 اور مارچ 2021 کے درمیان مشینری کی درآمد کے لیے کمرشل بینکوں سے رعایتی شرح سود پر قرض لینے کی اجازت دی تھی۔

ٹی ای آر ایف کے ڈھانچے نے انہی کمرشل بینکوں کو اسٹیٹ بینک سے فنڈز کی باقی لاگت کی وصولی کی اجازت دی۔

پی اے سی کے اراکین مطالبہ کر رہے ہیں کہ 4 کھرب 35 ارب 70 کروڑ روپے کی منظور شدہ فنانسنگ سےمستفید ہونے والے 628 افراد کے نام ظاہر کیے جائیں کیونکہ انہیں ’عوامی فنڈز‘ ملے تھے۔

کچھ وقت کے لیے اس اقدام پر مزاحمت کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک نے مبینہ طور پر اِن کیمرہ سیشن میں یہ نام پی اے سی کو جمع کرانے پر رضامندی ظاہر کی ہے لیکن بہت سے تجزیہ کاروں نے اس اقدام کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے گورنر نے کمیٹی کو بتایا تھا کہ ٹی ای آر ایف سے فائدہ اٹھانے والوں کی تفصیلات ظاہر کرنا بینک اور اس کے مؤکل کے درمیان رازداری کے معاہدے کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے سینئر وکیل باسل نبی ملک نے کہا کہ پی اے سی قانون کے مطابق ایک ’تجویزی ادارہ‘ہے، اس طرح کمیٹی کا مینڈیٹ ’انتہائی مشکوک‘ ہے جب یہ نجی افراد کی حساس بینکنگ معلومات کے افشا کا مطالبہ کرتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نجی کاروباری گروپوں کا احتساب پی اے سی کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، اور پی اے سی کی ہدایت کی تعمیل کرنا اسٹیٹ بینک کو مشکل پوزیشن میں ڈال سکتا ہے۔

ایس بی پی ایکٹ کا سیکشن 53 کہتا ہے کہ اس کے عہدیداروں کو’کسی بھی ادارے، شخص، افراد کے ادارے، کسی بھی حکومت یا اتھارٹی کے مالی معاملات کے حوالے سے رازداری برقرار رکھنا چاہیے، چاہے وہ پاکستان میں ہو یا باہر جو اس کے فرائض کی کارکردگی کے بارے میں اس کے علم میں آئے۔

ماہر اقتصادیات عمار ایچ خان پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے مینڈیٹ کی حد کے بارے میں باسل نبی ملک کے خیال سے متفق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی اے سی اپنے اختیار کو بہت زیادہ بڑھا رہی ہے کیونکہ ٹی ای آر ایف کو ٹیکس دہندگان کی جانب سے مالی اعانت فراہم نہیں کی گئی تھی،آپ کو کسی بھی بجٹ دستاویز میں اس کے لیے مختص رقم نہیں ملے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر قرض میں دو چیزیں شامل ہوتی ہیں، رسک اور لیکویڈیٹی، ٹی ای آر ایف قرضوں میں کمرشل بینکوں نے خطرات مول لیے جبکہ اسٹیٹ بینک نے انہیں آگے کے قرضے کے لیے لیکویڈیٹی فراہم کی، یوں لیکویڈیٹی یا رقم ٹیکس دہندگان کی جیب سے نہیں بلکہ اسٹیٹ بینک کے خزانے سے نکلی۔

عمار ایچ خان نے کہا کہ پالیسی ڈیزائن میں خامیوں، مثلاً برآمدی اور غیر برآمدی کاروبار میں کوئی فرق نہیں رکھنے، کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دو سال پہلے سبسڈی والے قرضوں کے لیے سائن اپ کرنے پر اس سے مستفید ہونے والوں کا نام لے کر شرمندہ کیا جائے اور ڈرایا جائے۔

ان قرض کے بعد کے برسوں کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ مشینری کی درآمدات بڑھی اور ملکی برآمدات میں بھی اضافہ ہوا۔

آئی بی اے کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عادل ناخودہ کا کہنا ہے کہ اداروں کو دی جانے والی سبسڈیز اکثر حکومتوں کو جیتنے والوں اور ہارنے والوں کو منتخب کرنا موقع دیتی ہیں، یہ ایسی چیز ہے جو معیشت میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ کاروباری اداروں کو سستی فنانسنگ کی صورت میں بھاری سبسڈی فراہم کرنا اور ٹیکنالوجی جیسے دیگر شعبوں پر بیک وقت ٹیکس بڑھانا طویل مدتی اور پائیدار بنیادوں پر سرمایہ کاری کو فروغ نہیں دیتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں