ایشیائی، اسلامی ترقیاتی بینک کا فلڈ پروٹیکشن پروجیکٹ کیلئے 66.5 کروڑ ڈالر فراہم کرنے کا فیصلہ

10 جولائ 2023
منصوبے پر عمل درآمد کی نگرانی سہ ماہی اجلاسوں کے ذریعے ایک اسٹیئرنگ کمیٹی کرے گی— فائل فوٹو: اے ایف پی
منصوبے پر عمل درآمد کی نگرانی سہ ماہی اجلاسوں کے ذریعے ایک اسٹیئرنگ کمیٹی کرے گی— فائل فوٹو: اے ایف پی

ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) اور اسلامی ترقیاتی بینک (آئی ایس ڈی بی) نے پاکستان کو 195 ارب روپے کے فلڈ پروٹیکشن سیکٹر پروجیکٹ۔III (ایف پی ایس پی) کی مالی معاونت کے لیے تقریباً 66 کروڑ 50 لاکھ ڈالر فراہم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس فنڈ سے ملک میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے خلاف لچک پیدا کی جاسکے گی اور اسٹرکچرل و نان اسٹرکچرل دونوں طریقے سے سیلاب کے حوالے سے جامع انتظامات کیے جاسکیں۔

سرکاری ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ اقتصادی امور ڈویژن (ای اے ڈی) نے متعلقہ وزارتوں اور حکام کو بتایا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک نے بالترتیب 40 کروڑ ڈالر اور 26 کروڑ 50 لاکھ ڈالر رقم کے ساتھ ایف پی ایس پی کی فنانسنگ پر اتفاق کیا ہے جبکہ چین کی جانب سے 10 کروڑ ڈالر گرانٹ کی بھی توقع ہے

ای اے ڈی کی تصدیق کی بنیاد پر قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنک) نے حال ہی میں چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں باضابطہ قرض کے معاہدوں اور منصوبے کے لیے 194.63 ارب روپے کی کل لاگت کے ساتھ ایف پی ایس پی-III پروجیکٹ کی دستاویزات کو منظور کیا کیا ہے۔

وزارت آبی وسائل کی طرف سے تیار کردہ اور ملک بھر میں اس پر عمل درآمد کے منصوبے کو وفاقی و صوبائی اور ڈونر فنانسنگ کے ذریعے مالی اعانت فراہم کی جائے گی۔ 20 فیصد حکومتی ایکویٹی وفاق اور صوبوں کی طرف سے 10 فیصد (19.5 ارب روپے ہر ایک کے ساتھ شیئر کی جائے گی جبکہ باقی 80 فیصد (تقریباً 156 ارب روپے) قرض دہندگان کی فنانسنگ پر مشتمل ہو گی۔

منصوبے پر عمل درآمد کی نگرانی سہ ماہی اجلاسوں کے ذریعے وزیر برائے منصوبہ بندی کی سربراہی میں ایک اسٹیئرنگ کمیٹی کرے گی، اور اس میں آبی وسائل، منصوبہ بندی، ہوا بازی، صوبائی چیف سیکریٹریز، آبپاشی کے سیکریٹریز، واپڈا اور وفاقی فلڈ کمیشن کے چیئرمین، ممبر واٹر پلاننگ کمیشن اور ممبران شامل ہیں۔

اسی طرح وزارت آبی وسائل اور وزارت منصوبہ بندی کی مانیٹرنگ ٹیمیں عمل درآمد کے مرحلے کے دوران مخصوص مداخلت کی نگرانی کریں گی اور اپنے نتائج کی رپورٹ اسٹیئرنگ کمیٹی کو دیں گی، الگ الگ دستاویزات بشمول ماحولیاتی اثرات، امکانات، انجینئرنگ ڈیزائن اور ہر مداخلت کے لیے نو آبجیکشن سرٹیفیکٹ کی صوبائی اور علاقائی سطح کے حوالے سے رپورٹ بھی متعلقہ ایجنسیوں جمع کروائیں گی۔

آبی وسائل کے وزیر نے پہلے ہی پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ کو خطوط لکھے ہیں کہ وہ ہر صوبے میں واقع تمام انفرادی ذیلی منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے مالیاتی مرحلے کے مطابق اپنے فنڈز کے حصص بروقت دستیاب کرائیں۔

اس منصوبے سے اضافی اور نئی مداخلتوں کے ذریعے سیلاب سے بچاؤ کی موجودہ معمولی سہولیات کو بڑھانا ہے اور نکاسی آب کے نیٹ ورک میں نالوں اور آبی گزرگاہوں کی بحالی اور از سر نو تعمیر کے ذریعے بہتری لانا ہے، خاص طور پر صوبہ سندھ میں جہاں 2022 کے سیلاب نے تباہی مچائی تھی، اس کے علاوہ ملک میں سیلاب ٹیلی میٹری نیٹ ورک کی تنصیب کرنا ہے تاکہ تمام دریا، نالے اور ندی نالوں کی ابتدائی، ثانوی سطح پر سیلاب کی درست پیش گوئی اور انتباہ جاری کیا جاسکے۔

مزید بتایا کہ اس میں سیلاب کی نگرانی کے لیے اسٹیشنری اور موبائل موسمی ریڈارز کی تنصیب بھی شامل ہے، جس میں کوئٹہ، کراچی، حیدر آباد، پشاور، گلگت، ملتان اور مظفرآباد میں علاقائی سیلاب سے قبل الرٹ کرنے کے مراکز کا قیام بھی شامل ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں