چیئرمین پی ٹی آئی کی سیاسی بنیادوں پر کی جانے والی’قانونی کارروائیوں’ کی مذمت

اپ ڈیٹ 10 جولائ 2023
پولیس کی جانب سے ٹوئٹر پر شیئر کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم جے آئی ٹی کو 12 کیسز میں مطلوب تھے— فائل فوٹو: آئی این پی
پولیس کی جانب سے ٹوئٹر پر شیئر کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم جے آئی ٹی کو 12 کیسز میں مطلوب تھے— فائل فوٹو: آئی این پی

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کیپیٹل پولیس افسر (سی پی او) آپریشنز کے دفتر میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش ہوئے جہاں تفتیش کاروں نے ان سے دو گھنٹے سے زیادہ پوچھ گچھ کی جب کہ انہوں نے اپنے خلاف جاری قانونی کارروائی کو مبینہ طور پر منصفانہ ٹرائل کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس کی جانب سے ٹوئٹر پر شیئر کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم، جے آئی ٹی کو 12 کیسز میں مطلوب تھے تاہم پی ٹی آئی چیئرمین کم از کم 5 کیسز میں تحقیقات میں شامل نہیں ہوئے۔

تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کے بعد عمران خان نے اپنی بنی گالا رہائش گاہ پر ایک رات قیام کا فیصلہ بھی کیا جہاں وہ گزشتہ کئی ماہ سے قیام نہیں کر رہے تھے۔

بنی گالا میں ان کے قیام کی وجہ ان کے خلاف درج کم از کم آٹھ مقدمات کے سلسلے میں آج بروز پیر ایک اور پیشی ہے، پی ٹی آئی کے ترجمان نے کہا کہ 8 کیسز ہیں جن میں عمران خان آج پیش ہونے پر غور کر رہے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے قانونی ٹیم کو ’گمراہ‘ کیا

پی ٹی آئی چیئرمین نے سیشن عدالت کے فیصلے پر تنقید کی جس میں ان کے خلاف توشہ خانہ کیس کو قابل سماعت قرار دیا گیا اور الزام لگایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کیس میں ان کی قانونی ٹیم کو بھی ’گمراہ‘ کیا۔

سابق وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ عدالتی حکم ان کی قانونی ٹیم کو سماعت کا موقع دیے بغیر منظور کیا گیا اور مزید کہا کہ اس نے انہیں نااہل قرار دینے اور سیاسی میدان سے باہر رکھنے کے لیے’تعصب اور جانبداری کا واضح مظاہرہ کیا’۔

انہوں نے الزام لگایا کہ منصفانہ ٹرائل اور فطری انصاف کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے تمام معاملات کا فیصلہ کیا جا رہا ہے، توشہ خانہ کیس میں ٹرائل جج کا حکم جس میں کہا گیا کہ یہ قابل سماعت ہے، یہ میرے خلاف فیصلہ حاصل کرنے کے لیے تعصب اور بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پہلے تو ان کے وکلا کو ہائی کورٹ کی جانب سے ’گمراہ‘ کیا گیا کہ ٹرائل کورٹ کے حکم کے خلاف ان کی نظرثانی کی درخواست کو قبول کر لیا گیا، لیکن جب تحریری حکم نامہ سامنے آیا تو کیس کو دوبارہ اسی جج کو بھیج دیا گیا جو فیصلہ دے کر اپنا مائنڈ ظاہر کر چکا تھا۔

دوسری بات یہ ہے کہ ٹرائل کورٹ کو میری درخواست پر فیصلہ کرنے کے لیے سات روز کا وقت دیا گیا لیکن میرے وکیل کو دلائل کا موقع نہ دینے کے باوجود تین دن میں عجلت میں فیصلہ کیا گیا، اس حقیقت کے باوجود کہ میرے وکلا نے پیر کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی جب کہ ریمانڈ آرڈر پہلے ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا، اس پر نمبر لگا دیا گیا ہے اور مقررہ 7 روز کے وقت سے قبل کسی بھی وقت وہ سماعت کے لیے مقرر کی جا سکتی ہے۔

سابق وزیراعظم کے مطابق یہ سب کچھ مجھے نااہل قرار دینے اور سیاسی میدان سے باہر رکھنے کی کوشش میں میرے خلاف تعصب اور جانبداری کو ظاہر کرتا ہے، گزشتہ ہفتے سیشنز کورٹ نے توشہ خانہ کیس کو بحال کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوا اور ریفرنس ان کی عدالت کی معمول کی کارروائی کو متاثر کر رہا ہے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی نے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے سابق حکمراں جماعت (پی ٹی آئی ) پر سی پیک روکنے سے الزام متعلق بیان پر ردعمل دیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سی پیک کو آگے لے جانے پر پی ٹی آئی میں ہمیشہ اتفاق رائے رہا اور عمران خان کی قیادت میں انہوں نے اہم منصوبوں کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھایا جس سے سی پیک کے لیے پاکستان کا عزم مزید مضبوط ہوا۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ فیصل آباد اور رشکئی انڈسٹریل زون کو پی ٹی آئی حکومت نے آپریشنل کیا اور دھابیجی انڈسٹریل زون کو بھی ہمارے دور حکومت میں ہی حتمی شکل دی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں