مسلم لیگ (ن) کی اسحٰق ڈار کو نگران وزیر اعظم بنانے کی تجویز، پیپلز پارٹی کا عدم اتفاق

احسن اقبال نے کہا ہے کہ تمام اتحادی جماعتیں اور اپوزیشن متفق ہو جائے تو اسحٰق ڈار نگران وزیر اعظم بن سکتے ہیں— فوٹو: مسلم لیگ (ن)
احسن اقبال نے کہا ہے کہ تمام اتحادی جماعتیں اور اپوزیشن متفق ہو جائے تو اسحٰق ڈار نگران وزیر اعظم بن سکتے ہیں— فوٹو: مسلم لیگ (ن)

مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کو نگران وزیر اعظم کے طور پر دیکھنے کے خواہاں ہیں، تاہم پیپلزپارٹی نے اس تجویز پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے جس کا مؤقف ہے کہ شریف خاندان سے تعلق رکھنے والا فرد غیر جانبدار سیٹ اَپ کی قیادت کے لیے موزوں نہیں ہو سکتا۔

تاہم ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے تحفظات دور کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں ایک ایسے سیاستدان کو نگران حکومت کی قیادت سونپنا چاہتے ہیں جو انتخابات میں تاخیر کے کسی بھی اقدام کو روک سکے، اتحادیوں کو راضی کرنے کے بعد حکمران جماعت کی جانب سے اس حوالے سے باضابطہ اعلان کیے جانے کا امکان ہے۔

نواز شریف کے ساتھ نگران سیٹ اپ کے حوالے سے معاملات طے کرنے کے لیے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری ایک بار پھر دبئی میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی دونوں کا خیال ہے کہ ایک قابل اعتماد نگران وزیر اعظم نہ صرف انتخابات میں تاخیر کے خطرے کو ٹالنے بلکہ دیگر سیاسی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بھی ضرروی ہے۔

دوسری جانب، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان دبئی میں ہونے والی ممکنہ ملاقات کے حوالے سے بےیقینی برقرار ہے۔

پیپلز پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوئی، مریم نواز بھی وطن واپس پہنچ چکی ہیں، قبل ازیں وہ اپنے والد کے ہمراہ متحدہ عرب امارات میں موجود تھیں۔

’کسی اور کا مطالبہ قبول نہیں‘

حکومتی اتحاد میں شامل اراکین کے ساتھ پس منظر میں جاری بات چیت میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ اسحٰق ڈار یا کسی اور سیاستدان کا نام ہی نگران وزیراعظم کے طور پر طے کیا جائے گا کیونکہ حکومتی اتحاد اس معاملے میں ’کسی اور‘ کے مطالبے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، یہ واضح اشارہ بظاہر ’اسٹیبلشمنٹ‘ کی جانب ہے۔

پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے بتایا کہ گزشتہ برس نومبر میں آرمی چیف کی تعیناتی کی طرح نواز شریف نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحاد اپنی مرضی کا نگران وزیر اعظم مقرر کرے گا۔

پارٹی کے اندرونی ذرائع نے کہا کہ اسحٰق ڈار کے نام پر آصف زرداری کے تحفظات دور کرنے کے لیے نواز شریف یہ مؤقف اختیار کر سکتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اس عہدے پر اختلاف اسٹیبلشمنٹ کو اس صورت حال کا فائدہ اٹھانے کا موقع دے گا، یہ ایک ایسی صورتحال ہوگی جو انتخابات میں غیر معمولی تاخیر کا باعث بن سکتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ اگر تمام اتحادی جماعتیں اور اپوزیشن متفق ہو جائیں تو اسحٰق ڈار نگران وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر اسحٰق ڈار پر تمام جماعتیں اور اپوزیشن اتفاق کرتی ہے تو وہ بھی نگران وزیراعظم ہو سکتے ہیں، کوئی اور بھی ہو سکتا ہے، میں نہ کسی کو شامل کر رہا ہوں نہ ہی کسی کو نکال رہا ہوں، جس پر بھی سب کا اتفاق رائے ہوگا اس نام پر اتفاق ہوجائے گا۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے اسحٰق ڈار کی مخالفت

تاہم پیپلزپارٹی نے اس حوالے سے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے کیونکہ اسحٰق ڈار، شریف خاندان کے رشتہ دار ہیں اور اس عہدے کے لیے موزوں نہیں ہیں جس پر ایک غیر جانبدار شخص کا تقرر مطلوب ہے لیکن نگران وزیر اعظم بہرحال ایک سیاستدان ہی ہونا چاہیے۔

پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے کسی کو بھی اس عہدے کے لیے تجویز نہیں کیا، نگران وزیر اعظم کے لیے ابھی تک ہمیں کوئی نام نہیں بھیجا گیا۔

وزیر اعظم کے مشیر اور پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ان کی جماعت چاہتی ہے کہ نگران وزیر اعظم سیاست دان ہو، لیکن تمام سیاسی فریقین کے درمیان اس بارے میں اتفاق رائے ہونا چاہیے۔

رہنما پیپلزپارٹی فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پارٹیوں کے درمیان نگران سیٹ اپ پر بات چیت جاری ہے، آصف زرداری اور بلاول بھٹو دونوں دبئی میں ہیں۔

فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کے ساتھ کسی امیدوار کا نام شیئر نہیں کیا، اس حوالے سے پارٹی اپنی تجویز وزیر اعظم شہباز شریف کو پیش کرے گی۔

واضح رہے کہ نگران وزیر اعظم کے لیے وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر دونوں کو 3، 3 نام پیش کرنے ہوں گے، جس میں سے ایک کا انتخاب کیا جائے گا۔

دبئی ملاقاتوں کی تردید کرتے ہوئے فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ گزشتہ روز دبئی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔

18ویں ترمیم کے بعد نگران سیٹ اپ نے ماضی قریب میں 2 عام انتخابات کی نگرانی کی، جس کی قیادت غیر جانبدار وزرائے اعظم نے کی، اگرچہ انتخابی قواعد انتخابات کی نگرانی کے لیے ایک غیرجانبدار نگران سیٹ اپ کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن اس بارے میں آئین میں کوئی واضح شق موجود نہیں ہے۔

تاہم اگر نگران حکومت کی قیادت کسی پارٹی کے وفادار کے ہاتھ میں ہو (مثلاً اسحٰق ڈار) تو اس سے انتخابات کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔

پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے آئین اور قانون میں یہ واضح نہیں ہے کہ نگران وزیر اعظم/ وزیراعلیٰ اور کابینہ کے وزرا غیر جانبدار ہوں اور کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہ ہوں۔

انہوں نے لکھا کہ ہاں، انہیں الیکشنز ایکٹ 2017 کے تحت غیر جانبدارانہ طور پر امور سرانجام دینے کی ضرورت ہے لیکن انہیں کسی پارٹی سے وابستہ ہونے سے کوئی چیز نہیں روکتی۔

نگران وزیر اعظم کو بااختیار بنانے کے لیے ترمیم

مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ عبوری نگران سیٹ اپ کو منتخب حکومت کی طرح اختیارات دینے کے لیے ایک ترمیم متعارف کرائی جا رہی ہے، یہ اختیارات نگران حکومت کو اہم فیصلے کرنے کی اجازت دیں گے۔

نواز شریف کے ترجمان محمد زبیر نے بتایا کہ انتخابات کے انعقاد تک نگران سیٹ اپ حکومت کے روزمرہ کے امور تک محدود نہیں رہے گا، منتخب حکومت کی طرح نگران حکومت کو اہم فیصلے کرنے کا اختیار دینے کے لیے آئین میں ایک ترمیم لائی جا رہی ہے۔

’ڈان نیوز‘ کے ایک پروگرام میں اسحٰق ڈار سے سوال کیا گیا کہ کیا الیکشنز ایکٹ کے سیکشن 230 (جو کہ نگران حکومت کے امور سے متعلق ہے) میں ترمیم ہونے والی ہے؟ جواب میں اسحٰق ڈار نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق ہاں، ایسا ہونے والا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ قوم سے چھپانے کی کوئی چیز ہے، انہیں پتا چل جائے گا اور اس میں واقعی ترمیم کی جانی چاہیے، نگران حکومت کو صرف روز مرہ کے کاموں میں الجھا کر قوم کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں