توہین پارلیمنٹ کا بل قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی منظور

اپ ڈیٹ 25 جولائ 2023
مذکورہ بل بلوچستان کے 4 اور پنجاب سے ایک سینیٹر نے پیش کیا — فائل فوٹو: اے پی پی
مذکورہ بل بلوچستان کے 4 اور پنجاب سے ایک سینیٹر نے پیش کیا — فائل فوٹو: اے پی پی

توہین پارلیمنٹ کا بل قومی اسمبلی کے بعد گزشتہ روز سینیٹ میں بھی منظور کرلیا گیا جہاں حال ہی میں منعقد ہونے والے میئر کراچی کے انتخابات کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے سینیٹرز کے درمیان سخت گرما گرمی دیکھنے میں آئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رواں برس مئی میں قومی اسمبلی سے منظور ہونے والا ’توہین پارلیمنٹ بل‘ ایک ضمنی ایجنڈے کے طور پر پیش کیا گیا، اب اس مجوزہ قانون کو صدر کی منظوری کے لیے بھیجا جائے گا تاکہ اسے پارلیمنٹ کا ایکٹ بنایا جا سکے۔

مذکورہ بل بلوچستان کے 4 اور پنجاب سے ایک سینیٹر نے پیش کیا، جن میں کدا بابر، نصیب اللہ بازئی، سرفراز بگٹی، شہزادہ احمد عمر احمد زئی اور رانا محمود الحسن شامل ہیں۔

بل ایوان میں آنے کے فوراً بعد وزیر مملکت برائے قانون شہادت اعوان نے چیئرمین کو بتایا کہ قومی اسمبلی پہلے ہی بل کو متفقہ طور پر منظور کر چکی ہے اور اسے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیجے بغیر ووٹنگ کرائی جائے۔

یہ بل ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان بالادستی کی جنگ جاری ہے، اراکین اسمبلی عدلیہ پر پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں مداخلت اور ماضی میں فوجی حکومتوں کی توثیق کا الزام عائد کر رہے ہیں۔

مجوزہ قانون کے تحت اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے تشکیل دی جانے والی توہین پارلیمنٹ کمیٹی میں 5 ارکان شامل ہوں گے جن میں سے 3 قومی اسمبلی اور 2 سینیٹ سے ہوں گے۔

سیکریٹری قومی اسمبلی، توہین پارلیمنٹ کمیٹی کے سیکریٹری کے طور پر کام کریں گے، مجوزہ قانون اسپیکر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اس ایکٹ کے نافذ ہونے کے 30 روز کے اندر توہین پارلیمنٹ کمیٹی تشکیل دے سکتا ہے۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ سے 2، 2 ارکان کے نام دونوں ایوانوں میں قائد حزب اختلاف اور پارلیمانی لیڈر تجویز کریں گے، جبکہ قومی اسمبلی کے ایک رکن کو اسپیکر اسمبلی نامزد کریں گے، کمیٹی کو اکثریتی فیصلے سے سزائیں دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ جو بھی اس قانون کے تحت توہین کا ارتکاب کرے گا اسے قید کی سزا دی جائے گی جو 6 ماہ تک ہو سکتی ہے یا جرمانہ عائد کیا جائے گا جو کہ 10 لاکھ روپے تک ہو سکتا ہے یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔

بل کے مطابق توہین پارلیمنٹ کمیٹی کو ’کوڈ آف سول پروسیجر 1908‘ کے تحت سول عدالتوں کو دیے گئے اختیارات حاصل ہوں گے، جس کے تحت کمیٹی کسی بھی شخص کو حاضری اور دستاویزات پیش کرنے کا پابند کرسکے گی۔

کمیٹی کے سامنے تمام کارروائی نیم عدالتی ہو گی اور کمیٹی کی جانب سے ریکارڈ کا حصہ بنائی گئی کوئی بھی دستاویز یا ثبوت کسی بھی عدالت میں بطور ثبوت قابل قبول نہیں ہوں گے۔

بل کے سیکشن 10 میں کہا گیا ہے کہ ایوان کا کوئی بھی فیصلہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ذریعے عمل میں لایا جائے گا، اس قانون کے تحت فیصلے کے خلاف کوئی بھی اپیل 30 دن کے اندر اسپیکر یا چیئرمین کے سامنے دائر کی جا سکتی ہے۔

قومی اسمبلی یا سینیٹ کی استحقاق کمیٹی 60 روز کے اندر پارلیمنٹ کے استحقاق کی خلاف ورزی یا پارلیمنٹ کی توہین کے معاملے پر سفارشات کے ساتھ ایک رپورٹ تیار کرے گی اور اس کی رپورٹ متعلقہ ایوان میں رکھ دی جائے گی تاکہ اس معاملے کو توہین پارلیمنٹ کمیٹی کو بھیج دیا جائے۔

بل کے مطابق اس ایکٹ کے تحت ایسا کوئی بھی شخص توہین پارلیمنٹ کا مجرم ہوگا، اگر اس نے جان بوجھ کر کسی رکن، ایوان یا کمیٹی کے استحقاق کی خلاف ورزی کی، اراکین کے استثنیٰ یا مراعات کی ضمانت دینے والے کسی قانون کی خلاف ورزی کی، ایوان یا کمیٹی کے کسی حکم یا ہدایت کو ماننے میں ناکام رہا یا انکار کیا، ثبوت دینے سے انکار کیا یا کمیٹی کے سامنے جھوٹا بیان ریکارڈ کرایا، کسی گواہ کو ثبوت فراہم کرنے، دستاویزات پیش کرنے یا کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے روکنے کی کوشش کی، کوئی بھی دستاویزات فراہم کرنے میں ناکام رہا یا ایوان/کمیٹی کے سامنے ترمیم شدہ دستاویزات جمع کرائے۔

میئر کراچی کے انتخاب پر تنازع کی سینیٹ میں گونج

کراچی میں میئر کے انتخاب پر تنازع کی گونج گزشتہ روز سینیٹ میں بھی سنائی دی جب جماعت اسلامی نے پیپلز پارٹی پر الیکشن چوری کرنے کا الزام عائد کیا اور پیپلز پارٹی کا اصرار تھا کہ اس نے میئر کا عہدہ منصفانہ طریقے سے حاصل کیا ہے۔

سینیٹر مشتاق احمد اور سینیٹر بہرامند تنگی کے درمیان سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا جس کے سبب چیئرمین کو ان کا مائیک بند کرنا پڑا، سینیٹر بہرامند تنگی نے جماعت اسلامی کے سینیٹر کے خلاف نازیبا زبان بھی استعمال کی اور ایک موقع پر ان پر حملہ کرنے کی کوشش بھی کی تاہم ساتھی اراکین نے مداخلت کرتے ہوئے بیچ بچاؤ کروایا۔

لفظی جنگ اس وقت شروع ہوئی جب جماعت اسلامی کے سینیٹر نے سینیٹر تاج حیدر کی جانب سے وفاقی حکومت سے لیاری ایکسپریس وے پر الیکٹرک بسیں چلانے کی اجازت دینے کی تحریک کی حمایت کی۔

تاہم انہوں نے الزام عائد کیا کہ پیپلز پارٹی نے میئر کراچی کے انتخاب میں دھاندلی کی، ان کے اس دعوے پر پیپلزپارٹی کے رہنماؤں بشمول شہادت اعوان، وقار مہدی، اور بہرامند تنگی کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا جن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار مرتضیٰ وہاب نے 104 ووٹ حاصل کیے جبکہ جماعت اسلامی کے امیدوار نے 86 ووٹ لیے۔

قبل ازیں سینیٹر تاج حیدر نے اپنی تحریک میں لیاری ایکسپریس وے پر بس سروس کی اجازت دینے سے انکار پر نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سولر انرجی سے چارج ہونے والی 75 الیکٹرک بسیں پہلے ہی سندھ حکومت درآمد کر چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد کراچی کے لوگوں کو آسان اور قابل رسائی ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کرنا ہے اور یہ ناکافی پبلک ٹرانسپورٹ کے دیرینہ مسئلے کو حل کرے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں