وزیر دفاع خواجہ آصف کی پارلیمنٹ میں ’خواتین سے متعلق متنازع تقریر‘ پر شیری رحمٰن نے وضاحت دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’میں خواتین سے متعلق بیان پر نہیں مسکرائی، اگر میں نے مکمل ریمارکس سنے ہوتے تو ضرور مداخلت کرتی۔‘

کچھ روز قبل خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ اخلاق باختہ عورتیں عفت و عصمت پر لیکچر نہ دیں، پہلے اپنا دامن دیکھیں پھر ہمیں پاک دامنی کا طعنہ دیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’اگر میں کچھ اور کہوں گا تو یہ ’عورت کارڈ‘ استعمال کریں گے، یہ کہیں گے کہ ہم عورتیں ہیں اور یہ ہمارے بارے میں کیسے بات کر رہا ہے،‘ خواجہ آصف کی اس بات پر ایوان میں قہقہے گونج اٹھے۔

وزیر دفاع نے خواتین اراکین پارلیمنٹ کو کھنڈرات اور عمران خان کی باقیات قرار دیتے ہوئے اُن نشستوں کی جانب اشارہ کیا تھا جہاں پی ٹی آئی کی خواتین اراکین اسمبلی سینیٹر زرقا سہروردی تیمور، ثانیہ نشتر، فلک ناز چترالی اور فوزیہ ارشد براجمان تھیں۔

خواجہ آصف نے مزید کہا تھا کہ یہ چیئرمین پی ٹی آئی کا چھوڑا ہوا کچرا ہے جسے صاف کرنا ہوگا، اُن کے اِس بیان پر پی ٹی آئی کی خواتین اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا جو اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑی ہوئیں اور خواجہ آصف سے اپنے الفاظ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

جس کے بعد وزیرِ دفاع نے اپنے ریمارکس پر معافی مانگنے سے انکار کر دیا تھا، خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے خواتین کے حوالے سے کوئی تضحیک آمیز گفتگو نہیں کی۔

خواتین سے متعلق خواجہ آصف کے ریمارکس کی ویڈیو جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو صارفین نے وفاقی وزیربرائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمٰن کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔

صارفین نے نشاندہی کی کہ خواجہ آصف جب خواتین کے حوالے سے متنازع تقریر کر رہے تھے تو شیریں رحمٰن مزاحمت کرنے کے بجائے مسکرا رہی تھیں۔

صارفین کی جانب سے تنقید پر شیری رحمٰن نے ٹوئٹر پر وضاحت دیتے ہوئے لکھا کہ ’میں خواتین سے متعلق بیان پر نہیں مسکرائی بلکہ میں اپنے ساتھی سے نیشنل ایڈاپٹیشن پلان کی منظوری کا ذکر کر رہی تھی۔‘

انہوں نے لکھا کہ ’جس وقت پارلیمنٹ میں خواتین سے متعلق ریمارکس دیے گئے میں ایک ساتھی کے ہمراہ نیشنل ایڈاپٹیشن پلان پر کچھ نکات شیئرکرنے میں مصروف تھی اور اگر مکمل تقریر سنی ہوتی تو میں ضرور مداخلت کرتی۔‘

شیری رحمٰن نے مزید لکھا کہ ’میں نے ریمارکس کا صرف آخری حصہ سنا تھا، اور سوچا تھا کہ یہ خصوصاً خواتین کے خلاف نہیں بلکہ یہ معمول کا ایک دوسرے کے خلاف سیاسی میچ ہے۔‘

انہوں نے لکھا کہ انہیں خوشی ماحولیاتی منصوبے پر کابینہ میں اتفاق رائے پر تھی کیونکہ اس منصوبے پر کام میں شب و روز صرف ہوئے تھے۔

دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی نے لکھا کہ ’ہم سب کو افسوس کرنا چاہیے کہ ہم سب نے سیاست کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے جہاں مردوں کو ہمیشہ جنسی تعصب اور تضحیک آمیز تبصرہ کرنے کے بعد اپنے آپ کو بچا لینے کا لائسنس مل جاتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میری جیسی خواتین جو اس طرح کے ماحول میں کام کرتی ہیں انہیں بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے، ایسے معاشرے میں کام کرنا آسان نہیں جہاں مردوں کی سرپرستی ہو لیکن ایسی مشکلات کے باوجود خواتین نے عزم اور ہمت کے ساتھ ان چیلنجز پر قابو پایا ہے۔‘

انہوں نے مزید لکھا کہ کسی بھی پیشے میں خواتین مردوں سے آگے ہیں اور مرد اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں، بہرحال ہر بار جب میں کسی مرد کو دوسری عورت کی توہین کرتے ہوئے سنتی ہوں تو مجھے دکھ ہوتا ہے اور ایسا وقت کبھی نہیں آئے گا جب میں سخت ترین الفاظ میں اس کی مذمت نہ کروں۔

شرمیلا فاروقی نے لکھا کہ کوئی بھی مرد جو عورت کی توہین کرتا ہے وہ دراصل اپنی ماں اور بیٹی کی توہین کرتا ہے۔

انہوں نے آخر میں وزیر دفاع کا نام لیتے ہوئے لکھا کہ ’خواجہ آصف صاحب، دو غلط مل کر ایک صحیح نہیں ہو سکتے۔‘

تبصرے (0) بند ہیں